كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح وَعَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَونَهَارٍ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: اوقات نماز کا بیان
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبد مناف کی اولاد! بیت اللہ کا طواف کرنے والے اور (اس میں) نماز پڑھنے والے کسی شخص کو نہ روکو‘ خواہ وہ شب و روز کی کسی گھڑی میں یہ کام کرے۔ ‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے‘ نیز ترمذی اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث میں مذکوروہ کون سی نماز ہے جسے ادا کرنے کی اجازت حکماً دی جا رہی ہے؟ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد طواف کعبہ کے بعد پڑھے جانے والے نوافل ہیں‘ عام نوافل مراد نہیں۔ مگر ابوداود میں مروی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے عام نوافل بھی مراد ہیں۔ (سنن أبي داود‘ المناسک‘ باب الطواف بعد العصر‘ حدیث:۱۸۹۴) امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ 2.جن تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے‘ جمہور علماء اسے خانۂ کعبہ میں پڑھے جانے والے نوافل پر منطبق نہیں کرتے۔ وہ اس حدیث سے ان اوقات میں بھی بیت اللہ شریف میں نماز وغیرہ پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابو محمد یا ابو امیہ ہے۔ ’’جبیر‘‘ تصغیر ہے جابر سے۔ پورا نام جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل قرشی ہے۔ بڑے حلیم الطبع اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ خاندان قریش کے نسب ناموں کو جانتے تھے۔ فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ ان کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ ۵۴‘ ۵۷ یا ۵۹ ہجری کو مدینے میں فوت ہوئے۔ [عبدمناف] مناف کا غلام۔ مناف مشہور بت تھا۔ والدہ نے اس کا خادم بنا دیا تھا اس وجہ سے عبد مناف کہلایا ورنہ اس کا اصل نام مغیرہ تھا‘ کنیت ابوعبد شمس تھی۔ بنو مخزوم اور بنو عبد مناف دونوں سے تعلق تھا۔ یاد رہے یہ عبد مناف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جد امجد تھا۔ قریش کا ذی وقار سردار شمار ہوتا تھا۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، المناسك، باب الطواف بعد العصر، حديث:1894، والترمذي، الحج، حديث:868، والنسائي، مناسك الحج، حديث:2927، وابن ماجه، الصلاة، حديث:1254، وأحمد:4 /80، وابن حبان (الإحسان): 3 /46، حديث: 1550.
1. اس حدیث میں مذکوروہ کون سی نماز ہے جسے ادا کرنے کی اجازت حکماً دی جا رہی ہے؟ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد طواف کعبہ کے بعد پڑھے جانے والے نوافل ہیں‘ عام نوافل مراد نہیں۔ مگر ابوداود میں مروی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے عام نوافل بھی مراد ہیں۔ (سنن أبي داود‘ المناسک‘ باب الطواف بعد العصر‘ حدیث:۱۸۹۴) امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ 2.جن تین اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے‘ جمہور علماء اسے خانۂ کعبہ میں پڑھے جانے والے نوافل پر منطبق نہیں کرتے۔ وہ اس حدیث سے ان اوقات میں بھی بیت اللہ شریف میں نماز وغیرہ پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابو محمد یا ابو امیہ ہے۔ ’’جبیر‘‘ تصغیر ہے جابر سے۔ پورا نام جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل قرشی ہے۔ بڑے حلیم الطبع اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ خاندان قریش کے نسب ناموں کو جانتے تھے۔ فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کر کے مدینہ تشریف لے آئے۔ ان کی تاریخ وفات میں اختلاف ہے۔ ۵۴‘ ۵۷ یا ۵۹ ہجری کو مدینے میں فوت ہوئے۔ [عبدمناف] مناف کا غلام۔ مناف مشہور بت تھا۔ والدہ نے اس کا خادم بنا دیا تھا اس وجہ سے عبد مناف کہلایا ورنہ اس کا اصل نام مغیرہ تھا‘ کنیت ابوعبد شمس تھی۔ بنو مخزوم اور بنو عبد مناف دونوں سے تعلق تھا۔ یاد رہے یہ عبد مناف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جد امجد تھا۔ قریش کا ذی وقار سردار شمار ہوتا تھا۔