كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ - رضي الله عنه - قَالَ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: ((لَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلَفْظُ مُسْلِمٍ: ((لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ)). وَلَهُ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّي فِيهِنَّ، وَأَنْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، وَحِينَ تَتَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ. وَالْحُكْمُ الثَّانِي عِنْدَ ((الشَّافِعِيِّ)) مِنْ: حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ. وَزَادَ: إِلَّا يَوْمَ الْجُمْعَةِ. وَكَذَا لِأَبِي دَاوُدَ: عَنْ أَبِي قَتَادَةَ نَحْوُهُ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: اوقات نماز کا بیان
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے :’’صبح کی نماز ادا کر لینے کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز (جائز) نہیں اور نماز عصر ادا کر چکنے کے بعد غروب آفتاب تک کوئی دوسری نماز (جائز) نہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور مسلم کے الفاظ ہیں: ’’نماز فجر کے بعد کوئی نمازنہیں۔‘‘ مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنے اور میت کی تدفین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع فرمایا کرتے تھے: اول‘ یہ کہ جب آفتاب طلوع ہو رہا ہو‘ تاآنکہ وہ بلند ہو جائے۔ دوم‘ جب دوپہر کو سورج سیدھا کھڑا ہو جب تک کہ ڈھل نہ جائے اور سوم‘ جس وقت سورج غروب ہونے کے لیے جھک جائے۔ دوسرا حکم امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ضعیف سند سے روایت کیا ہے‘ مگر اس میں [إِلَّا یَوْمَ الْجُمُعَۃِ] کے الفاظ زیادہ ہیں‘ یعنی نصف النہار کے وقت نماز نہ پڑھو مگر جمعہ کے روز پڑھ سکتے ہو اور ابوداود نے بھی حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے اس کے مانند روایت نقل کی ہے ۔
تشریح :
1. اس حدیث میں ممنوع اوقات میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کا ذکر ہے۔ 2.ممنوع کام یہ ہیں کہ ہم ان اوقات میں نہ نماز ادا کریں اور نہ میت دفن کریں۔ 3.یہاں تدفین سے مراد نماز جنازہ بھی ہے کہ اس ممنوع وقت میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ میت کو دفن کیا جائے‘ البتہ اگر کوئی عذر ہو تو پھر جائز ہے۔ پہلا وقت طلوعِ آفتاب کا ہے کہ جب وہ طلوع ہورہا ہو تو نماز اور جنازہ ممنوع ہیں حتی کہ وہ بلند ہو جائے۔ اور دوسرا وقت دوپہر کا ہے‘ جب سورج عین وسط آسمان پر قائم ہو‘ مغرب کی جانب زوال پذیر نہ ہوا ہو تو ایسے وقت میں بھی (نفلی) نماز یا نماز جنازہ پڑھنا اور میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔ اور تیسرا وقت غروب آفتاب کا ہے‘ اس میں بھی نماز جنازہ یا میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔4.حدیث میں طلوع آفتاب کے بعد تَرْتَفِعَکا ذکر ہے کہ وہ بلند ہو جائے‘ اس بلندی سے کیا مراد ہے؟ ابوداود اور نسائی وغیرہ کی روایت میں اس اونچائی کا اندازہ ایک نیزہ یا دو نیزے کی مقدار مذکور ہے۔ جب سورج مشرق کے افق پر ایک نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا ہو جائے تو پھر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ ] ’’عین‘‘ پر ضمہ اور ’’قاف‘‘ ساکن ہے۔ ان کی کنیت ابوحماد یا ابوعامر ہے۔ ہجرت ‘ صحبت اور اسلام میں سبقت حاصل کرنے والے قدیم صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ کتاب اللہ کے قاری اور علم میراث اور فقہ کے مشہور عالم تھے۔ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ معرکۂ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ان کی طرف سے تین سال مصر کے والی رہے‘ نیز غزوۃ البحر کے امیر رہے۔ مصر میں ۵۸ ہجری میں وفات پائی اور مقطم میں دفن ہوئے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب لاتتحري الصلاة قبل غروب الشمس، حديث:586، ومسلم، صلاة المسافرين، باب الأوقات التي نهي عن الصلاة فيها ، حديث:827، وحديث عقبة بن عامر أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، حديث:831، وحديث أبي هريرة أخرجه الشافعي في مسنده:1 /139 وإسناده ضعيف جدًا، وحديث أبي قتادة أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث: 1083 وسنده ضعيف، وللحديث شواهد ضعيفة* سند أبي داود منقطع وفيه ليث بن أبي سليم وهو ضعيف، ترك من أجل اختلاطه.
1. اس حدیث میں ممنوع اوقات میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کا ذکر ہے۔ 2.ممنوع کام یہ ہیں کہ ہم ان اوقات میں نہ نماز ادا کریں اور نہ میت دفن کریں۔ 3.یہاں تدفین سے مراد نماز جنازہ بھی ہے کہ اس ممنوع وقت میں نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ میت کو دفن کیا جائے‘ البتہ اگر کوئی عذر ہو تو پھر جائز ہے۔ پہلا وقت طلوعِ آفتاب کا ہے کہ جب وہ طلوع ہورہا ہو تو نماز اور جنازہ ممنوع ہیں حتی کہ وہ بلند ہو جائے۔ اور دوسرا وقت دوپہر کا ہے‘ جب سورج عین وسط آسمان پر قائم ہو‘ مغرب کی جانب زوال پذیر نہ ہوا ہو تو ایسے وقت میں بھی (نفلی) نماز یا نماز جنازہ پڑھنا اور میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔ اور تیسرا وقت غروب آفتاب کا ہے‘ اس میں بھی نماز جنازہ یا میت کو دفن کرنا ممنوع ہے۔4.حدیث میں طلوع آفتاب کے بعد تَرْتَفِعَکا ذکر ہے کہ وہ بلند ہو جائے‘ اس بلندی سے کیا مراد ہے؟ ابوداود اور نسائی وغیرہ کی روایت میں اس اونچائی کا اندازہ ایک نیزہ یا دو نیزے کی مقدار مذکور ہے۔ جب سورج مشرق کے افق پر ایک نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا ہو جائے تو پھر نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ ] ’’عین‘‘ پر ضمہ اور ’’قاف‘‘ ساکن ہے۔ ان کی کنیت ابوحماد یا ابوعامر ہے۔ ہجرت ‘ صحبت اور اسلام میں سبقت حاصل کرنے والے قدیم صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ کتاب اللہ کے قاری اور علم میراث اور فقہ کے مشہور عالم تھے۔ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ معرکۂ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ ان کی طرف سے تین سال مصر کے والی رہے‘ نیز غزوۃ البحر کے امیر رہے۔ مصر میں ۵۸ ہجری میں وفات پائی اور مقطم میں دفن ہوئے۔