كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ صحيح وَأَخْرَجَ الشَّيْخَانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ)).
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: ذکر اور دعا کا بیان
امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو کلمے ایسے ہیں جو رحمن کو بہت پیارے ہیں‘ زبان پر بہت ہلکے اور ترازو میں بہت بھاری ہیں۔‘‘ (وہ کلمات یہ ہیں:)[سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ] ’’اللہ پاک ہے اپنی خوبیوں سمیت۔ اللہ پاک ہے عظمت والا۔‘‘
تشریح :
1.مؤلف رحمہ اللہ نے اس کتاب کی ترتیب و تنسیق بہت خوبصورت اور حسین انداز میں کی ہے اور انھوں نے حمد اور تسبیح دونوں کو جمع کر دیا ہے اور وہ اس طرح کہ کتاب کا آغاز بسم اللّٰہ اور الحمدللّٰہ سے کیا اور اختتام تسبیح و تحمید اور تعظیم سے کیا۔ اور غالباً اسی وجہ سے مصنف نے احادیث کے حوالہ جات میں اپنی عام عادت کو چھوڑ کر نیا انداز اختیار کیا ہے۔ انھوں نے اس حدیث کے آخر میں ’’ متفق علیہ‘‘ کہنے کی بجائے شروع میں أَخْرَجَ الشَّیْخَان کہہ دیا تاکہ اس کتاب کے آخری الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں‘ یعنی [سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ‘ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ] 2. اس حدیث میں دو کلموں کا ہلکا اور وزنی ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ زبان سے ان کا ادا کرنا سہل و آسان ہے۔ یہ کلمے بڑی آسانی سے ہر ایک کی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں‘ کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان میں حروف ثقیلہ کا استعمال نہیں ہوا۔ اور ان کے بھاری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح نیکی کے مشقت والے اعمال وزن میں بھاری ہوں گے اسی طرح یہ آسانی سے پڑھے جانے والے کلمات بھی میزان اعمال میں بھاری اور ثقیل ہوں گے۔ 3.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قیامت کے روز اعمال کا جسم ہوگا اور انھیں تولا جائے گا۔ 4.اس حدیث سے اللہ عزوجل کی وسعت رحمت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نیک و مخلص بندوں کے تھوڑے اعمال کے بدلے میں بہت زیادہ اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ یہ محض اس کا فضل و کرم اور مہربانی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الدعوات، باب فضل التسبيح، حديث:6406، (7563 آخر البخاري)، ومسلم، الذكروالدعاء، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء، حديث:2694.
1.مؤلف رحمہ اللہ نے اس کتاب کی ترتیب و تنسیق بہت خوبصورت اور حسین انداز میں کی ہے اور انھوں نے حمد اور تسبیح دونوں کو جمع کر دیا ہے اور وہ اس طرح کہ کتاب کا آغاز بسم اللّٰہ اور الحمدللّٰہ سے کیا اور اختتام تسبیح و تحمید اور تعظیم سے کیا۔ اور غالباً اسی وجہ سے مصنف نے احادیث کے حوالہ جات میں اپنی عام عادت کو چھوڑ کر نیا انداز اختیار کیا ہے۔ انھوں نے اس حدیث کے آخر میں ’’ متفق علیہ‘‘ کہنے کی بجائے شروع میں أَخْرَجَ الشَّیْخَان کہہ دیا تاکہ اس کتاب کے آخری الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں‘ یعنی [سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ‘ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ] 2. اس حدیث میں دو کلموں کا ہلکا اور وزنی ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ زبان سے ان کا ادا کرنا سہل و آسان ہے۔ یہ کلمے بڑی آسانی سے ہر ایک کی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں‘ کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان میں حروف ثقیلہ کا استعمال نہیں ہوا۔ اور ان کے بھاری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح نیکی کے مشقت والے اعمال وزن میں بھاری ہوں گے اسی طرح یہ آسانی سے پڑھے جانے والے کلمات بھی میزان اعمال میں بھاری اور ثقیل ہوں گے۔ 3.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قیامت کے روز اعمال کا جسم ہوگا اور انھیں تولا جائے گا۔ 4.اس حدیث سے اللہ عزوجل کی وسعت رحمت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نیک و مخلص بندوں کے تھوڑے اعمال کے بدلے میں بہت زیادہ اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ یہ محض اس کا فضل و کرم اور مہربانی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔