كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ حسن وَعَنْ أَنَسٍ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: ((اللَّهُمَّ انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي، وَعَلِّمْنِي مَا يَنْفَعُنِي، وَارْزُقْنِي عِلْمًا يَنْفَعُنِي)). رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالْحَاكِمُ. وَلِلتِّرْمِذِيِّ: مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوُهُ، وَقَالَ فِي آخِرِهِ: ((وَزِدْنِي عِلْمًا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَأَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ)). وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: ذکر اور دعا کا بیان
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: [اَللّٰھُمَّ! انْفَعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي‘ وَ عَلِّمْنِي مَا یَنْفَعُنِي‘ وَارْزُقْنِي عِلْمًا یَنْفَعُنِي] ’’اے اللہ! تو نے جو علم مجھے عطا فرمایا ہے اسے میرے لیے نافع بنا دے اور مجھے ایسا علم عطا فرما جو میرے لیے نافع ہو اور مجھے نفع والا علم عطا فرما۔‘‘ (اسے نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔) اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اس کے آخر میں یہ اضافہ ہے: [وَزِدْنِي عِلْمًا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَالٍ‘ وَأَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ حَالِ أَھْلِ النَّارِ] ’’اور میرے علم میں اضافہ فرما۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ہے اور میں اہل دوزخ کے حالات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (اس کی سند حسن ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث میں جو دعا منقول ہے اس میں ایسے علم کے لیے درخواست کی گئی ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید اور سود مند ہو۔ 2. جو علم‘ آخرت تباہ کر دے اس کی دعا کرنا مومن کو زیب نہیں دیتا کیونکہ مومن کے نزدیک اخروی کامیابی و کامرانی بنیادی چیز ہے۔ 3.نافع علم وہ ہے جس سے ایمانی قوت میں اضافہ ہو اور عمل کرنے کی رغبت پیدا ہو۔ 4. دنیاوی علوم کی درخواست دنیاوی امور کی اصلاح اور بہتری کے لیے جائز ہے۔ اس سے انسان کے ایمان باللہ میں اضافہ ہوگا‘ ان علوم میں بھی اہل ایمان کو برتری حاصل ہونی چاہیے ورنہ دنیاوی اعتبار سے کفار کا تسلط اور غلبہ ہوگا۔ اس دور میں یہی صورت حال ہے کہ ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں غیرمسلم بہت آگے نکل چکے ہیں اور وہی آج دنیا کی قیادت کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں‘ اسی زور پر جہاں چاہتے ہیں انقلاب اور تبدیلی لے آتے ہیں۔ اہل اسلام کو ان میدانوں میں بھی اپنی برتری اور فوقیت کا سکہ منوانا چاہیے۔
تخریج :
أخرجه النسائي في الكبرٰى: 4 /445، حديث:7868، والحاكم:1 /510 وصححه على شرط مسلم، ووافقه الذهبي، وحديث أبي هريرة: أخرجه الترمذي، الدعوات، حديث:3599 وسنده ضعيف، محمد بن ثابت مجهول، وتلميذه ضعيف.
1. اس حدیث میں جو دعا منقول ہے اس میں ایسے علم کے لیے درخواست کی گئی ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں مفید اور سود مند ہو۔ 2. جو علم‘ آخرت تباہ کر دے اس کی دعا کرنا مومن کو زیب نہیں دیتا کیونکہ مومن کے نزدیک اخروی کامیابی و کامرانی بنیادی چیز ہے۔ 3.نافع علم وہ ہے جس سے ایمانی قوت میں اضافہ ہو اور عمل کرنے کی رغبت پیدا ہو۔ 4. دنیاوی علوم کی درخواست دنیاوی امور کی اصلاح اور بہتری کے لیے جائز ہے۔ اس سے انسان کے ایمان باللہ میں اضافہ ہوگا‘ ان علوم میں بھی اہل ایمان کو برتری حاصل ہونی چاہیے ورنہ دنیاوی اعتبار سے کفار کا تسلط اور غلبہ ہوگا۔ اس دور میں یہی صورت حال ہے کہ ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں غیرمسلم بہت آگے نکل چکے ہیں اور وہی آج دنیا کی قیادت کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں‘ اسی زور پر جہاں چاہتے ہیں انقلاب اور تبدیلی لے آتے ہیں۔ اہل اسلام کو ان میدانوں میں بھی اپنی برتری اور فوقیت کا سکہ منوانا چاہیے۔