كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلِمُسْلِمٍ عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَهُ، وَقَالَ: ((سَجْدَةً)) بَدَلَ ((رَكْعَةً)). ثُمَّ قَالَ: وَالسَّجْدَةُ إِنَّمَا هِيَ الرَّكْعَةُ.
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
باب: اوقات نماز کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے طلوع آفتاب سے پہلے نماز فجر کی ایک رکعت پالی‘ اس نے صبح کی نماز پالی۔ اور جس نے غروب آفتاب سے قبل نماز عصر کی ایک رکعت پا لی‘ اس نے عصر کی نماز پا لی۔‘‘ (بخاری و مسلم)اور مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے مگر اس میں (رَکْعَۃً) کی جگہ (سَجْدَۃً) کا لفظ ہے‘ پھر کہا کہ سَجْدَۃ سے مراد رکعت ہی ہے۔
تشریح :
عین طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز کا آغاز ممنوع ہے لیکن اگر کسی نے نماز پہلے شروع کر لی پھر طلوع یا غروب آفتاب ہو گیا تو نمازی کو چاہیے کہ دوسری رکعت یا باقی رکعتیں پوری کر لے‘ اس کی نماز ہو جائے گی۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا یہی مطلب ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ عصر کو ناقص وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کررہا ہے‘ لہٰذا اس کی نماز ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہو ااسی طرح اس کی ادائیگی کی۔ اس کے برعکس فجر کو کامل وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کر رہا ہے‘ لہٰذا اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہوا اسی طرح سے اس کی ادائیگی نہیں کی۔ اس طرح ایک ہی حدیث کے ایک ٹکڑے کو مانتے ہیں اور دوسرے ٹکڑے کا‘ محض اپنے موقف کے خلاف ہونے کی وجہ سے‘ انکار کر دیتے ہیں اور اَفَتُؤمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ کا مصداق بنتے ہیں۔ یہ ہیں احناف کی فقہی موشگافیاں۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰـٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔
تخریج :
أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب من أدرك من الفجر ركعة، حديث:579، ومسلم، المساجد، باب من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك تلك الصلاة، حديث:608، وحديث عائشة أخرجه مسلم، المساجد، حديث:609.
عین طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز کا آغاز ممنوع ہے لیکن اگر کسی نے نماز پہلے شروع کر لی پھر طلوع یا غروب آفتاب ہو گیا تو نمازی کو چاہیے کہ دوسری رکعت یا باقی رکعتیں پوری کر لے‘ اس کی نماز ہو جائے گی۔ نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا یہی مطلب ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ عصر کو ناقص وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کررہا ہے‘ لہٰذا اس کی نماز ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہو ااسی طرح اس کی ادائیگی کی۔ اس کے برعکس فجر کو کامل وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کر رہا ہے‘ لہٰذا اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہوا اسی طرح سے اس کی ادائیگی نہیں کی۔ اس طرح ایک ہی حدیث کے ایک ٹکڑے کو مانتے ہیں اور دوسرے ٹکڑے کا‘ محض اپنے موقف کے خلاف ہونے کی وجہ سے‘ انکار کر دیتے ہیں اور اَفَتُؤمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ کا مصداق بنتے ہیں۔ یہ ہیں احناف کی فقہی موشگافیاں۔ فَاعْتَبِرُوْا یٰـٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔