كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ ضعيف وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا مَدَّ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ، لَمْ يَرُدَّهُمَا، حَتَّى يَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ. أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ. وَلَهُ شَوَاهِدُ مِنْهَا:حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ: عَنْ أَبِي دَاوُدَ. وَمَجْمُوعُهَا يَقْتَضِي أَنَّهُ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: ذکر اور دعا کا بیان
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو انھیں جب تک چہرے پر پھیر نہ لیتے ‘واپس نہ لوٹاتے۔ (اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کے کئی شواہد ہیں‘ ان میں سے ایک ابوداود وغیرہ کے ہاں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے۔ اور ان کا مجموعہ تقاضا کرتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔)
تشریح :
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہم کا اثر اس سے کفایت کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت مجموعی لحاظ سے درجۂ حسن تک پہنچتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی بابت’’ الادب المفرد‘‘ میں ابونعیم سے موقوفاً صحیح سند سے روایت بیان کی ہے کہ ابونعیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کو دعا کرتے ہوئے اور اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیرتے ہوئے دیکھا‘ نیز اس مسئلے کی بابت امام طبرانی رحمہ اللہ نے یزید بن سعید الکندی کی روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے اور اس کا استاد غیر معروف ہے‘ لیکن اس حدیث کے مؤید شاہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور ہے۔ علاوہ ازیں حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی حسن سند کے ساتھ اس کی تائید مروی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (العلل:۲ /۳۴۷) گو مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن یہ عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے صحیح سندوں سے ثابت ہے‘ لہٰذا اسے بدعت کہنا درست نہیں‘ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسنون نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، الدعاء، باب ما جاء في رفع الأيدي عند الدعاء، حديث:3386.* حمادبن عيسى ضعيف، وحديث ابن عباس:أخرجه أبوداود، الوتر، حديث:1485 وسنده ضعيف، عبدالملك وعبدالله مجهولان، وللحديث شواهد ضعيفة، وأثر ابن عمر وابن الزبير يغني عنه، رواه البخاري في الأدب المفرد: (609) وسنده حسن.
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہم کا اثر اس سے کفایت کرتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت مجموعی لحاظ سے درجۂ حسن تک پہنچتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی بابت’’ الادب المفرد‘‘ میں ابونعیم سے موقوفاً صحیح سند سے روایت بیان کی ہے کہ ابونعیم فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کو دعا کرتے ہوئے اور اپنی ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیرتے ہوئے دیکھا‘ نیز اس مسئلے کی بابت امام طبرانی رحمہ اللہ نے یزید بن سعید الکندی کی روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے اور اس کا استاد غیر معروف ہے‘ لیکن اس حدیث کے مؤید شاہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ بنیاد ضرور ہے۔ علاوہ ازیں حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی حسن سند کے ساتھ اس کی تائید مروی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (العلل:۲ /۳۴۷) گو مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن یہ عمل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے صحیح سندوں سے ثابت ہے‘ لہٰذا اسے بدعت کہنا درست نہیں‘ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسنون نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔