كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ صحيح وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((إِنَّ الدُّعَاءَ هُوَ الْعِبَادَةُ)). رَوَاهُ الْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ. وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ بِلَفْظِ: ((الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ)). وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ: ((لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الدُّعَاءِ)). وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: ذکر اور دعا کا بیان
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک دعا ہی عبادت ہے۔‘‘ (اسے چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔) اور ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت میں [اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ] کے الفاظ ہیں: ’’دعا عبادت کا مغزہے۔‘‘ اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوع روایت ہے: ’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز معزز و مکرم نہیں۔‘‘ (ابن حبان اور حاکم دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. ہمارے فاضل محقق نے حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور اس روایت پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث شواہد کی بنا پر حسن درجے کی ہے اور یہی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۴ /۳۶۰‘ ۳۶۱‘ والمشکاۃ للألباني‘ التحقیق الثاني‘ رقم:۲۳۲) 2. اس حدیث میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر اللہ سے جو دعائیں حاجات و مشکلات حل کرانے کے لیے کی جاتی ہیں وہ گویا غیر اللہ کی عبادت ہے‘ اسی لیے غیراللہ سے دعا مانگنا شرک ہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الدعاء، حديث:1479، والترمذي، تفسير القرآن، حديث:3247، وابن ماجه، الدعاء، حديُ:3828، والنسائي، في الكبرٰى:6 /450، حديث:11464، "الدعاءمخ العبادة" أخرجه الترمذي، الدعوات، حديث:3371 وسنده ضعيف، وليد بن مسلم وشيخه عنعنا، "ليس شيء أكرم على الله من الدعاء "أخرجه الترمذي، الدعوات، حديث:3370، وابن حبان (الموارد)، حديث:2397، والحاكم:1 /490، وصححه، ووافقه الذهبي، وسنده ضعيف، قتادة عنعن.
1. ہمارے فاضل محقق نے حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی روایات کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کو شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور اس روایت پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث شواہد کی بنا پر حسن درجے کی ہے اور یہی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۴ /۳۶۰‘ ۳۶۱‘ والمشکاۃ للألباني‘ التحقیق الثاني‘ رقم:۲۳۲) 2. اس حدیث میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر اللہ سے جو دعائیں حاجات و مشکلات حل کرانے کے لیے کی جاتی ہیں وہ گویا غیر اللہ کی عبادت ہے‘ اسی لیے غیراللہ سے دعا مانگنا شرک ہے۔