بلوغ المرام - حدیث 134

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ حسن وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أَصْبِحُوا بِالصُّبْحِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِأُجُورِكُمْ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ.

ترجمہ - حدیث 134

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: اوقات نماز کا بیان حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روشن کرو صبح کو (لمبی قراء ت کر کے۔) ایسا کرنا تمھارے اجر میں اضافے کا موجب ہے۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. احناف نے اس حدیث کو مدارِ استدلال بنا کر اسفار کو افضل قرار دیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی عمل‘ خلفائے راشدین‘ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے عمل کی بنا پر یہ استدلال وزنی نہیں رہتا۔ 2.ابوداود میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک بار نماز فجر غلس (تاریکی) میں پڑھی اور ایک بار اسفار میں بھی پڑھی۔ بعد ازاں وفات تک ہمیشہ غلس ہی میں پڑھتے رہے۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب في المواقیت‘ حدیث:۳۹۴) 3.اس حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ صبح واضح اور صاف طور پر معلوم ہونے لگے۔ کسی قسم کا شک باقی نہ رہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے۔ یا پھر مراد لمبی قراء ت کر کے روشن کرنا ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الصلاة، باب وقت الصبح، حديث:424، والترمذي، الصلاة، حديث:154، والنسائي، الصلاة، حديث:549، وابن ماجه، الصلاة، حديث:672، وأحمد:4 /140، وابن حبان (الإحسان) حديث:1489*هذا حديث منسوخ كما بينته في نيل المقصود في التعليق على سنن أبي داود، وغيره. 1. احناف نے اس حدیث کو مدارِ استدلال بنا کر اسفار کو افضل قرار دیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی عمل‘ خلفائے راشدین‘ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے عمل کی بنا پر یہ استدلال وزنی نہیں رہتا۔ 2.ابوداود میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک بار نماز فجر غلس (تاریکی) میں پڑھی اور ایک بار اسفار میں بھی پڑھی۔ بعد ازاں وفات تک ہمیشہ غلس ہی میں پڑھتے رہے۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب في المواقیت‘ حدیث:۳۹۴) 3.اس حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ صبح واضح اور صاف طور پر معلوم ہونے لگے۔ کسی قسم کا شک باقی نہ رہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے۔ یا پھر مراد لمبی قراء ت کر کے روشن کرنا ہے۔