بلوغ المرام - حدیث 1332

كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ صحيح عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((يَقُولُ اللَّهُ -تَعَالَى: أَنَا مَعَ عَبْدِي مَا ذَكَرَنِي، وَتَحَرَّكَتْ بِي شَفَتَاهُ)). أَخْرَجَهُ ابْنُ مَاجَهْ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ تَعْلِيقًا.

ترجمہ - حدیث 1332

کتاب: متفرق مضامین کی احادیث باب: ذکر اور دعا کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اس وقت تک اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب تک وہ میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر کے ساتھ حرکت کرتے ہیں۔‘‘ (اسے ابن ماجہ نے بیان کیاہے ‘ نیز ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور بخاری نے اسے تعلیقاً بیان کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث میں ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ 2. اللہ کے ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والے خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور ساتھ نصیب ہوتا ہے۔ 3. ’’ذکر‘‘ اللہ تعالیٰ کی توحید‘ اس کی ثنا‘ تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔ محض دل میں ان کلمات کے ہونے کا کوئی معنی نہیں جب تک کہ زبان بھی دل کی ہمنوا نہ ہو۔ اور صرف زبان سے ادا کرنا اور دل کا بے خبر رہنا‘ اس سے بھی کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ جب دل اور زبان ہم آہنگ ہوں اور ایک دوسرے کے ہمنوا ہوں تو مطلوب حاصل ہوتا ہے اور یہی اللہ کے ہاں مطلوب اور محبوب ہے۔ 4.دعا اور ذکر میں طلب کا فرق ہے۔ دعا میں طلب ہوتی ہے جب کہ ذکر میں نہیں۔ 5. دعا کی فضیلت میں بہت سی احادیث منقول ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی الوابل الصیب اس سلسلے میں بہترین کتاب ہے۔ اہل ذوق اس کی طرف رجوع فرمائیں۔
تخریج : أخرجه ماجه، الأدب، باب فضل الذكر، حديث:3792، وابن حبان(الإحسان):2 /92، والبخاري تعليقًا، التوحيد، باب قول الله تعالى: " لا تحرك به لسانك..."، قبل حديث:7524. 1. اس حدیث میں ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ 2. اللہ کے ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والے خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور ساتھ نصیب ہوتا ہے۔ 3. ’’ذکر‘‘ اللہ تعالیٰ کی توحید‘ اس کی ثنا‘ تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔ محض دل میں ان کلمات کے ہونے کا کوئی معنی نہیں جب تک کہ زبان بھی دل کی ہمنوا نہ ہو۔ اور صرف زبان سے ادا کرنا اور دل کا بے خبر رہنا‘ اس سے بھی کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ جب دل اور زبان ہم آہنگ ہوں اور ایک دوسرے کے ہمنوا ہوں تو مطلوب حاصل ہوتا ہے اور یہی اللہ کے ہاں مطلوب اور محبوب ہے۔ 4.دعا اور ذکر میں طلب کا فرق ہے۔ دعا میں طلب ہوتی ہے جب کہ ذکر میں نہیں۔ 5. دعا کی فضیلت میں بہت سی احادیث منقول ہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی الوابل الصیب اس سلسلے میں بہترین کتاب ہے۔ اہل ذوق اس کی طرف رجوع فرمائیں۔