بلوغ المرام - حدیث 1330

كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ التَّرْغِيبِ فِي مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((المُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ)). أَخْرَجَهُ ابْنُ مَاجَهْ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ، وَهُوَ عِنْدَ التِّرْمِذِيِّ: إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يُسَمِّ الصِّحَابِيَّ.

ترجمہ - حدیث 1330

کتاب: متفرق مضامین کی احادیث باب: اچھے اخلاق کی ترغیب کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مومن لوگوں سے میل جول رکھتا ہے اور ان کی ایذا رسانی پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی ایذا رسانی پر صبر بھی نہیں کرتا۔‘‘ (اس حدیث کو ابن ماجہ نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے‘ نیز یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے مگر اس نے صحابی کا نام نہیں لیا۔)
تشریح : اس حدیث میں اس آدمی کو بہتر قرار دیا گیا ہے جو لوگوں میں مل جل کر رہتا ہے‘ ان سے میل جول اور ملاقات رکھتا ہے‘ دین کی تبلیغ کرتا ہے‘ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے اور تبلیغ دین کے سلسلے میں ان کی جانب سے جو تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے اسے صبر و تحمل سے برداشت کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف اسے دین کی وجہ سے دی گئی ہے‘ لہٰذا وہ اس شخص سے بدرجہا بہتر ہے جو لوگوں میں آتا جاتا نہیں‘ ان سے میل ملاقات نہیں رکھتا‘ نہ وہ دین کی تبلیغ کرتا ہے اور نہ ہی ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے‘ نہ کسی سے تعاون لیتا ہے اور نہ دیتا ہے‘ البتہ جو آدمی ایذا رسانی کو برداشت نہیں کر سکتا بلکہ اس سے اس کی اپنی دینداری کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس شخص کے لیے عزلت اور کنارہ کشی کی گنجائش ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
تخریج : أخرجه ابن ماجه، الفتن، باب الصبر على البلاء، حديث:4032، والترمذي، صفة القيامة، حديث:2507 بألفاظ مختلفة. اس حدیث میں اس آدمی کو بہتر قرار دیا گیا ہے جو لوگوں میں مل جل کر رہتا ہے‘ ان سے میل جول اور ملاقات رکھتا ہے‘ دین کی تبلیغ کرتا ہے‘ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے اور تبلیغ دین کے سلسلے میں ان کی جانب سے جو تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے اسے صبر و تحمل سے برداشت کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف اسے دین کی وجہ سے دی گئی ہے‘ لہٰذا وہ اس شخص سے بدرجہا بہتر ہے جو لوگوں میں آتا جاتا نہیں‘ ان سے میل ملاقات نہیں رکھتا‘ نہ وہ دین کی تبلیغ کرتا ہے اور نہ ہی ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے‘ نہ کسی سے تعاون لیتا ہے اور نہ دیتا ہے‘ البتہ جو آدمی ایذا رسانی کو برداشت نہیں کر سکتا بلکہ اس سے اس کی اپنی دینداری کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس شخص کے لیے عزلت اور کنارہ کشی کی گنجائش ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔