بلوغ المرام - حدیث 133

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 133

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: اوقات نماز کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب گرمی کی شدت ہو تو ٹھنڈے وقت میں نماز پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے پڑھنی چاہیے۔ مگر اس تاخیر کی حد کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں ابوداود اور سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسم گرما میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے پانچ قدم تک ہو جاتا۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب في المواقیت‘ حدیث: ۴۰۰‘ وسنن النسائي‘ المواقیت‘ باب آخر وقت الظھر‘ حدیث: ۵۰۴) 2.علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ تمام ممالک کے لیے قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول بلد اور عرض بلد کے اعتبار سے اس کا حساب بھی مختلف ہوگا۔ بہرحال موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے‘ یہی جمہور اہل علم کی رائے ہے۔ 3.علامہ سندھی نے سنن نسائی کے حاشیے میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیادہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر ہوتی تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا اور اس سائے میں اصل اور زائد دونوں سائے شمار ہوئے ہیں۔
تخریج : أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب الإبراد بالظهر في شدة الحر، حديث:536، ومسلم، المساجد، باب استحباب الإبرارد بالظهر في شدة الحر...، حديث:615. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے پڑھنی چاہیے۔ مگر اس تاخیر کی حد کیا ہونی چاہیے؟ اس بارے میں ابوداود اور سنن نسائی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسم گرما میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے پانچ قدم تک ہو جاتا۔ (سنن أبي داود‘ الصلاۃ‘ باب في المواقیت‘ حدیث: ۴۰۰‘ وسنن النسائي‘ المواقیت‘ باب آخر وقت الظھر‘ حدیث: ۵۰۴) 2.علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ تمام ممالک کے لیے قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول بلد اور عرض بلد کے اعتبار سے اس کا حساب بھی مختلف ہوگا۔ بہرحال موسم گرما میں نماز ظہر ذرا تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے‘ یہی جمہور اہل علم کی رائے ہے۔ 3.علامہ سندھی نے سنن نسائی کے حاشیے میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ آپ زوال کے بعد جو زیادہ سے زیادہ تاخیر کرتے وہ اسی قدر ہوتی تھی کہ گرمیوں میں سایہ تین قدم اور سردیوں میں پانچ سے سات قدم تک ہوتا تھا اور اس سائے میں اصل اور زائد دونوں سائے شمار ہوئے ہیں۔