كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ التَّرْغِيبِ فِي مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((المُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ، احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ، وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، وَلَا تَعْجَزْ، وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ: لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا، وَلَكِنْ قُلْ: قَدَّرَ اللَّهُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ; فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: اچھے اخلاق کی ترغیب کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قوی مومن اللہ کے ہاں ضعیف و کمزور مومن سے زیادہ محبوب ہے۔ اور ہر مومن میں بھلائی و اچھائی ہے۔ جو چیز تیرے لیے نفع بخش ہے اس کی حرص و لالچ کر۔ مدد صرف اللہ سے طلب کر اور عاجز و درماندہ بن کر نہ بیٹھ۔ اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو اس طرح مت کہہ کہ اگریہ کام میں نے اس طرح سر انجام دیا ہوتا تو اس سے مجھے یہ اور یہ فوائد حاصل ہوتے۔ بلکہ اس طرح کہا کر کہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا اور جو چاہا کر دکھایا۔ کیونکہ لفظ لَوْ (اگر) شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث میں لفظ لو (جس کے معنی ’’اگر‘‘ کے ہوتے ہیں) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے جبکہ بعض احادیث سے اس کے استعمال کی گنجائش نظر آتی ہے‘ لہٰذا یہ ممانعت تنزیہی ہے‘ تحریمی نہیں۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر ’’ لو‘‘ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اگر میں فلاں کام اس طرح انجام دیتا تو یقینا اس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوتا تو اس طور پر لفظ لَو کااستعمال حرام ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہی ہو کر رہنا تھا جو ہو چکا ہے اور ہوگا بھی وہی جو تقدیر الٰہی میں ہے تو ایسی صورت میں لفظ لَوْ کا استعمال درست ہوگا‘ ممنوع نہیں ہوگا۔ 2. اسی طرح اگر دین اسلام کی اتباع نہ کرنے یا کم اجر والا کام کرنے اور زیادہ اجر والا کام رہ جانے پر تاسف اور اظہار افسوس کی صورت میں لَوْکہتا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: [ لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْھَدْيَ] ’’اگر مجھے اس بات کا پہلے پتہ چل جاتا جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا۔‘‘ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: ۷۲۲۹) یعنی عمرہ کر کے حلال ہوجاتا پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام نئے سرے سے باندھتا، یعنی حج تمتع کرتا۔3. اسی طرح اس حدیث سے پتہ چلا کہ قوی و مضبوط مومن کو اللہ تعالیٰ‘ ضعیف و کمزور کے مقابلے میں محبوب رکھتا ہے کیونکہ جہاد میں قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔ تندرست و صحت مند آدمی ‘بیمار و کمزور آدمی کے مقابلے میں دین کی خدمت زیادہ کر سکتا ہے اور عبادت میں زیادہ محنت کر سکتا ہے‘ نیز غرباء و مساکین ‘ ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی خدمت بھی زیادہ کر سکتا ہے۔ لیکن قوت و ہمت کے باوجود انسان اسی وقت کچھ کر سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو‘ اس لیے اس میں حکم ہے کہ بہرنوع اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔ وہی تمھارا کارساز ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، القدر، باب في الأمر بالقوة وترك العجز...، حديث:2664.
1. اس حدیث میں لفظ لو (جس کے معنی ’’اگر‘‘ کے ہوتے ہیں) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے جبکہ بعض احادیث سے اس کے استعمال کی گنجائش نظر آتی ہے‘ لہٰذا یہ ممانعت تنزیہی ہے‘ تحریمی نہیں۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ مگر بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر ’’ لو‘‘ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اگر میں فلاں کام اس طرح انجام دیتا تو یقینا اس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوتا تو اس طور پر لفظ لَو کااستعمال حرام ہے۔ اور اگر یہ عقیدہ ہو کہ وہی ہو کر رہنا تھا جو ہو چکا ہے اور ہوگا بھی وہی جو تقدیر الٰہی میں ہے تو ایسی صورت میں لفظ لَوْ کا استعمال درست ہوگا‘ ممنوع نہیں ہوگا۔ 2. اسی طرح اگر دین اسلام کی اتباع نہ کرنے یا کم اجر والا کام کرنے اور زیادہ اجر والا کام رہ جانے پر تاسف اور اظہار افسوس کی صورت میں لَوْکہتا ہے تو یہ بھی جائز ہے۔ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: [ لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْھَدْيَ] ’’اگر مجھے اس بات کا پہلے پتہ چل جاتا جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں قربانی کے جانور ساتھ نہ لاتا۔‘‘ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: ۷۲۲۹) یعنی عمرہ کر کے حلال ہوجاتا پھر آٹھ ذوالحجہ کو حج کا احرام نئے سرے سے باندھتا، یعنی حج تمتع کرتا۔3. اسی طرح اس حدیث سے پتہ چلا کہ قوی و مضبوط مومن کو اللہ تعالیٰ‘ ضعیف و کمزور کے مقابلے میں محبوب رکھتا ہے کیونکہ جہاد میں قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔ تندرست و صحت مند آدمی ‘بیمار و کمزور آدمی کے مقابلے میں دین کی خدمت زیادہ کر سکتا ہے اور عبادت میں زیادہ محنت کر سکتا ہے‘ نیز غرباء و مساکین ‘ ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کی خدمت بھی زیادہ کر سکتا ہے۔ لیکن قوت و ہمت کے باوجود انسان اسی وقت کچھ کر سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو‘ اس لیے اس میں حکم ہے کہ بہرنوع اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔ وہی تمھارا کارساز ہے۔