بلوغ المرام - حدیث 132

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعِشَاءِ، حَتَّى ذَهَبَ عَامَّةُ اللَّيْلِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَصَلَّى، وَقَالَ: ((إِنَّهُ لَوَقْتُهَا لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 132

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: اوقات نماز کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شب نماز عشاء اتنی تاخیر سے پڑھی کہ رات کا اکثر حصہ گزر گیا‘ پھر آپ تشریف لائے اور نماز پڑھی، پھر فرمایا: ’’عشاء کا (افضل) وقت یہ ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈالوں (تو میں یہی وقت مقرر کرتا۔‘‘) (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نماز عشاء تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں افضلیت کا ثواب صرف اسی نماز کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی نماز کے ساتھ نہیں۔ پہلے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کے لیے کبھی نمازیوں کی آمد کا انتظار بھی کر لیا کرتے تھے‘ اگر وہ دیر سے جمع ہوتے تو نماز میں بھی تاخیر فرما لیتے اور اگر نمازی جلد جمع ہو جاتے تو جلدی جماعت کرا دیتے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کا خیال رکھتے‘ جو چیز افراد امت کے لیے مشقت اور دشواری کا باعث ہوتی اس میں آسانی کرنے کی کوشش فرماتے۔
تخریج : أخرجه مسلم، المساجد، باب وقت العشاء وتأخيرها، حديث:638. یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نماز عشاء تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں افضلیت کا ثواب صرف اسی نماز کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی نماز کے ساتھ نہیں۔ پہلے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کے لیے کبھی نمازیوں کی آمد کا انتظار بھی کر لیا کرتے تھے‘ اگر وہ دیر سے جمع ہوتے تو نماز میں بھی تاخیر فرما لیتے اور اگر نمازی جلد جمع ہو جاتے تو جلدی جماعت کرا دیتے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کا خیال رکھتے‘ جو چیز افراد امت کے لیے مشقت اور دشواری کا باعث ہوتی اس میں آسانی کرنے کی کوشش فرماتے۔