كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الرَّهَبِ مِنْ مَسَاوِئِ الْأَخْلَاقِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا- قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ; فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا)). أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: برے اخلاق سے ڈرانے کا بیان
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فوت شدگان کو گالی نہ دو کیونکہ انھوں نے جو کچھ آگے بھیجا تھا اس تک وہ پہنچ چکے ہیں۔‘‘ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث میں کسی بھی مرنے والے کو برا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ مردے کو گالی دینے کی وجہ سے اس کے لواحقین کو اذیت پہنچتی ہے جو باہمی دشمنی اور عداوت کا باعث بن سکتی ہے۔ ویسے بھی یہ لغو اور فضول سی بات ہے کیونکہ مرنے والا اپنے مالک کے پاس پہنچ چکا‘ اب اس کا معاملہ اس کے سپرد ہے‘ سزا دے یا نہ دے۔ کسی کے گالی دینے سے اسے کیا فرق پڑے گا۔ پھر یہ کون سی شرافت ہے کہ جو جوابی کارروائی کی حالت میں نہیں اسے گالی دی جائے۔ اسے گالی گلوچ کرنے سے سوائے اپنے نفس کو جلانے کے کیا حاصل ؟
تخریج :
أخرجه البخاري، الرقاق، باب سكرات الموت، حديث:6516.
اس حدیث میں کسی بھی مرنے والے کو برا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ مردے کو گالی دینے کی وجہ سے اس کے لواحقین کو اذیت پہنچتی ہے جو باہمی دشمنی اور عداوت کا باعث بن سکتی ہے۔ ویسے بھی یہ لغو اور فضول سی بات ہے کیونکہ مرنے والا اپنے مالک کے پاس پہنچ چکا‘ اب اس کا معاملہ اس کے سپرد ہے‘ سزا دے یا نہ دے۔ کسی کے گالی دینے سے اسے کیا فرق پڑے گا۔ پھر یہ کون سی شرافت ہے کہ جو جوابی کارروائی کی حالت میں نہیں اسے گالی دی جائے۔ اسے گالی گلوچ کرنے سے سوائے اپنے نفس کو جلانے کے کیا حاصل ؟