بلوغ المرام - حدیث 130

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح وَعَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ مِنَ الْعِشَاءِ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ، وَيَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَعِنْدَهُمَا مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ: وَالْعِشَاءُ أَحْيَانًا وَأَحْيَانًا: إِذَا رَآهُمْ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ، وَإِذَا رَآهُمْ أَبْطَئُوا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ: كَانَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - يُصَلِّيهَا بِغَلَسٍ. وَلِمُسْلِمٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى: فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ، وَالنَّاسُ لَا يَكَادُ يَعْرِفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا.

ترجمہ - حدیث 130

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: اوقات نماز کا بیان حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر پڑھاتے‘ پھر ہم میں سے ایک آدمی اپنے گھر لوٹتا جو مدینے کے آخری کنارے پر ہوتا اور ابھی سورج زندہ (روشن‘ صاف) ہی ہوتا۔ آپ نماز عشاء کو کچھ تاخیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ اور نماز عشاء سے پہلے سونے کو اور بعد میں (غیر ضروری) باتیں کرنے کو ناپسند فرماتے۔ اور نماز فجر سے ایسے وقت میں فارغ ہوتے جب کہ نمازی اپنے ساتھ والے شخص کو پہچان لیتا۔ آپ (عموماً) ساٹھ سے سو آیات تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم)اور بخاری و مسلم ہی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نماز عشاء کبھی جلدی پڑھ لیتے اور کبھی تاخیر سے ادا کرتے۔ جب آپ دیکھتے کہ نمازی جمع ہو گئے ہیں تو جلد پڑھا دیتے اور اگر دیکھتے کہ نمازیوں نے آنے میں دیر کر دی ہے تو تاخیر کر دیتے‘ البتہ صبح کی نماز آپ اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے۔ اور مسلم میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے صبح کی نماز صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دی یہاں تک کہ (اندھیرے کی وجہ سے) صحابہ ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے۔
تشریح : 1. اس حدیث میں لفظ غَلَس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر‘ اول وقت (اندھیرے) میں پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرمایا کرتے تھے اور وہ بھی ترتیل سے‘ ٹھہر ٹھہر کر۔ اس سے بھی اندازہ کر لیجیے کہ آپ نماز کا آغاز کس وقت میں کرتے ہوں گے۔ 2. اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہیے مگر صبح صادق کا اچھی طرح نمایاں ہونا ضروری ہے‘ اس لیے کہ اس سے پہلے تو نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ] ابوبرزہ ان کی کنیت ہے۔ نضـلہ بن عبید نام ہے۔ قدیم الاسلام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں۔ فتح مکہ اور دوسرے غزوات میں شریک رہے۔ بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی‘ پھر بعد میں خراسان چلے گئے۔ اور ایک قول کے مطابق مرویا بصرہ میں ۶۰ ہجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا سن وفات ۶۴ ہجری ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، باب وقت العصر، حديث: 547، ومسلم المساجد، باب وقت العشاء وتأخيرها، وحديث جابر أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، حديث:560، ومسلم، المساجد، حديث:646، وحديث أبي موسي أخرجه مسلم، المساجد، حديث:614. 1. اس حدیث میں لفظ غَلَس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر‘ اول وقت (اندھیرے) میں پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرمایا کرتے تھے اور وہ بھی ترتیل سے‘ ٹھہر ٹھہر کر۔ اس سے بھی اندازہ کر لیجیے کہ آپ نماز کا آغاز کس وقت میں کرتے ہوں گے۔ 2. اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہیے مگر صبح صادق کا اچھی طرح نمایاں ہونا ضروری ہے‘ اس لیے کہ اس سے پہلے تو نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ راوئ حدیث: [حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ] ابوبرزہ ان کی کنیت ہے۔ نضـلہ بن عبید نام ہے۔ قدیم الاسلام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں۔ فتح مکہ اور دوسرے غزوات میں شریک رہے۔ بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی‘ پھر بعد میں خراسان چلے گئے۔ اور ایک قول کے مطابق مرویا بصرہ میں ۶۰ ہجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا سن وفات ۶۴ ہجری ہے۔