كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الرَّهَبِ مِنْ مَسَاوِئِ الْأَخْلَاقِ حسن وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ -رَفَعَهُ-: ((لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ، وَلَا اللَّعَّانُ، وَلَا الْفَاحِشَ، وَلَا الْبَذِيءَ)). وَحَسَّنَهُ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ، وَرَجَّحَ الدَّارَقُطْنِيُّ وَقْفَهُ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: برے اخلاق سے ڈرانے کا بیان
اورترمذی ہی میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع روایت میں ہے: ’’مومن بہت طعن کرنے والا‘ بہت لعنت کرنے والا‘ فحش گواور بدزبان نہیں ہوتا۔‘‘ (ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے‘ حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور دارقطنی نے اس کاموقوف ہونا راجح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ مومن کامل کے لیے لائق نہیں کہ وہ بد خو‘ فحش گو اور لعن اور طعن کرنے والا ہو‘ البتہ اس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جنھیں خود اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے‘ ان پر لعن طعن کیا جا سکتا ہے‘ مثلاً: کافر‘ شراب پینے والا اور حلالہ کرنے والا وغیرہ۔ راوئ حدیث: [حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ] بڑے جلیل القدر اور بہت بڑے عابد و زاہد صحابی تھے۔ ان کا نام عویمر بن زید یا ابن عامر یا ابن مالک بن عبداللہ بن قیس تھا۔ انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ خزرج قبیلے سے تھے‘ اس لیے انصاری اور خزرجی کہلائے۔ بدر کے روز اسلام قبول کیا اور احد میں شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بدری اصحاب میں شامل فرمایا تھا۔ انھوں نے جمع قرآن کی خدمت انجام دی۔ دمشق کے والی رہے۔ ان کے فضائل بے شمار ہیں۔ ان کے اقوال زریں میں سے ایک قول یہ ہے کہ بعض اوقات ایک لمحے کی شہرت‘ طویل حزن و ملال سے دوچار کر دیتی ہے۔ ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في اللعنة، حديث:1977، والحاكم:1 /12 وصححه.
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ مومن کامل کے لیے لائق نہیں کہ وہ بد خو‘ فحش گو اور لعن اور طعن کرنے والا ہو‘ البتہ اس سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جنھیں خود اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے‘ ان پر لعن طعن کیا جا سکتا ہے‘ مثلاً: کافر‘ شراب پینے والا اور حلالہ کرنے والا وغیرہ۔ راوئ حدیث: [حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ ] بڑے جلیل القدر اور بہت بڑے عابد و زاہد صحابی تھے۔ ان کا نام عویمر بن زید یا ابن عامر یا ابن مالک بن عبداللہ بن قیس تھا۔ انصار سے تعلق رکھتے تھے۔ خزرج قبیلے سے تھے‘ اس لیے انصاری اور خزرجی کہلائے۔ بدر کے روز اسلام قبول کیا اور احد میں شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بدری اصحاب میں شامل فرمایا تھا۔ انھوں نے جمع قرآن کی خدمت انجام دی۔ دمشق کے والی رہے۔ ان کے فضائل بے شمار ہیں۔ ان کے اقوال زریں میں سے ایک قول یہ ہے کہ بعض اوقات ایک لمحے کی شہرت‘ طویل حزن و ملال سے دوچار کر دیتی ہے۔ ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔