بلوغ المرام - حدیث 129

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الْمَوَاقِيتِ صحيح عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِوٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا; أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((وَقْتُ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ، وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ مَا لَمْ يَحْضُرِ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَلَهُ مِنْ حَدِيثِ بُرَيْدَةَ فِي الْعَصْرِ: ((وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ)). وَمِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى: ((وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ)).

ترجمہ - حدیث 129

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل باب: اوقات نماز کا بیان حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز ظہر کا وقت زوال آفتاب سے آدمی کا سایہ اس کے برابر ہونے تک ہے‘ جب تک کہ عصر کا وقت شروع نہ ہو۔ اور عصر کا وقت سورج کی رنگت زرد ہو جانے تک رہتا ہے۔ اور نماز مغرب کا وقت شفق کے غائب ہونے تک رہتا ہے۔ اور عشاء کی نماز کا وقت رات کے پہلے نصف تک ہے۔ اور نماز فجر کا وقت صبح صادق کے طلوع سے شروع ہو کر طلوع شمس تک رہتا ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)اور مسلم ہی میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے عصر کے بارے میں مروی ہے: ’’سورج سفید اور بالکل صاف حالت میں ہو۔‘‘ (زردی میں داخل نہ ہو۔) اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’آفتاب بلند ہو۔‘‘ (غروب کی طرف مائل نہ ہو۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے ظہر کا وقت ایک مثل تک ثابت ہوتا ہے‘ اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ ائمۂ ثلاثہ: امام شافعی‘ امام مالک‘ امام احمد کے علاوہ امام ابویوسف اور امام زفر رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ایک روایت کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بھی اسی طرح ہے لیکن ان کی طرف جو مشہور روایت منسوب ہے وہ دو مثل کی ہے۔ 2.علمائے احناف نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اس روایت کو قبول کیا ہے مگر کسی صحیح مرفوع حدیث سے دو مثل تک ظہر کا وقت ثابت نہیں۔ 3. بہتر یہی ہے کہ نماز ظہر ایک مثل کے درمیان ہی میں ادا کر لی جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد قاضی ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ 4. اس حدیث میں مذکور ایک مسئلہ شفق کا بھی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد افق آسمان پر نمودار ہونے والی سرخی کے فوراً بعد جو سفیدی ظاہر ہوتی ہے شفق سے وہ مراد ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب شمس کے ساتھ افق آسمان پر نمایاں ہوتی ہے۔ قرین قیاس بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ 5. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دو سینگوں میں طلوع ہوتا ہے اور وہ آفتاب پرستوں کا مخصوص وقت ہے۔ اسی طرح عین غروب شمس کے وقت بھی نماز شروع نہیں کرنی چاہیے۔ 6. اس حدیث سے اوقات صلوات خمسہ بھی معلوم ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لیے اول اور آخر وقت یہی ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ 7. رہا یہ مسئلہ کہ دھوپ کے زردی مائل ہو جانے کے بعد عصر کا وقت اور آدھی رات کے بعد عشاء کا وقت رہتا بھی ہے یا نہیں؟ اس حدیث سے یہی ثابت ہو رہا ہے کہ مختار وقت نہیں رہتا۔ سورج کے زرد ہونے کے بعد نماز پڑھنے والے کو حدیث میں منافق کہا گیا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ اور بریدہ بن حصیب نام ہے۔ بریدہ اور حصیب دونوں تصغیر کے ساتھ ہیں۔ قبیلہ ٔاسلم سے ہونے کی وجہ سے اسلمی کہلائے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے دوران میں اس قبیلے کے پاس سے گزرے تو اس موقع پر جو تقریباً ۸۰ آدمی مسلمان ہوئے ان میں یہ بھی شامل تھے۔ غزوئہ احد کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ اوربیعت رضوان میں حاضر تھے۔ بصرہ کی طرف چلے گئے تھے‘ پھر وہاں سے خراسان کی جانب جہاد کے لیے نکل گئے اور مرو میں قیام پذیر ہوئے۔ وہیں ۶۲ یا ۶۳ ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور تدفین عمل میں آئی۔[حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ] ان سے مراد عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جلیل القدر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتاہے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زبید اور عدن پر عامل مقرر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہ کوفہ اور بصرہ کے والی مقرر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں تستر فتح ہوا اور دیگر بہت سے شہر بھی انھوں نے فتح کیے۔ ۴۲ ہجری میں وفات پائی۔اس کے علاوہ بھی سن وفات منقول ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم ، المساجد، باب أوقات الصلوات الخمس، حديث:612، وحديث وبريدة أخرجه مسلم، المساجد، حديث:613، وحديث أبي موسي أخرجه مسلم، المساجد، حديث:614. 1. اس حدیث سے ظہر کا وقت ایک مثل تک ثابت ہوتا ہے‘ اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ ائمۂ ثلاثہ: امام شافعی‘ امام مالک‘ امام احمد کے علاوہ امام ابویوسف اور امام زفر رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ ایک روایت کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بھی اسی طرح ہے لیکن ان کی طرف جو مشہور روایت منسوب ہے وہ دو مثل کی ہے۔ 2.علمائے احناف نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اس روایت کو قبول کیا ہے مگر کسی صحیح مرفوع حدیث سے دو مثل تک ظہر کا وقت ثابت نہیں۔ 3. بہتر یہی ہے کہ نماز ظہر ایک مثل کے درمیان ہی میں ادا کر لی جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد قاضی ابویوسف اور امام محمد کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ 4. اس حدیث میں مذکور ایک مسئلہ شفق کا بھی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد افق آسمان پر نمودار ہونے والی سرخی کے فوراً بعد جو سفیدی ظاہر ہوتی ہے شفق سے وہ مراد ہے۔ اس کے برعکس امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب شمس کے ساتھ افق آسمان پر نمایاں ہوتی ہے۔ قرین قیاس بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ 5. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے کیونکہ اس وقت سورج شیطان کے دو سینگوں میں طلوع ہوتا ہے اور وہ آفتاب پرستوں کا مخصوص وقت ہے۔ اسی طرح عین غروب شمس کے وقت بھی نماز شروع نہیں کرنی چاہیے۔ 6. اس حدیث سے اوقات صلوات خمسہ بھی معلوم ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نماز کے لیے اول اور آخر وقت یہی ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ 7. رہا یہ مسئلہ کہ دھوپ کے زردی مائل ہو جانے کے بعد عصر کا وقت اور آدھی رات کے بعد عشاء کا وقت رہتا بھی ہے یا نہیں؟ اس حدیث سے یہی ثابت ہو رہا ہے کہ مختار وقت نہیں رہتا۔ سورج کے زرد ہونے کے بعد نماز پڑھنے والے کو حدیث میں منافق کہا گیا ہے۔ راوئ حدیث: [حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ ] ان کی کنیت ابوعبداللہ اور بریدہ بن حصیب نام ہے۔ بریدہ اور حصیب دونوں تصغیر کے ساتھ ہیں۔ قبیلہ ٔاسلم سے ہونے کی وجہ سے اسلمی کہلائے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ کے دوران میں اس قبیلے کے پاس سے گزرے تو اس موقع پر جو تقریباً ۸۰ آدمی مسلمان ہوئے ان میں یہ بھی شامل تھے۔ غزوئہ احد کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ اوربیعت رضوان میں حاضر تھے۔ بصرہ کی طرف چلے گئے تھے‘ پھر وہاں سے خراسان کی جانب جہاد کے لیے نکل گئے اور مرو میں قیام پذیر ہوئے۔ وہیں ۶۲ یا ۶۳ ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور تدفین عمل میں آئی۔[حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ] ان سے مراد عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جلیل القدر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتاہے۔ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ غزوئہ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ زبید اور عدن پر عامل مقرر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہ کوفہ اور بصرہ کے والی مقرر ہوئے۔ ان کے ہاتھوں تستر فتح ہوا اور دیگر بہت سے شہر بھی انھوں نے فتح کیے۔ ۴۲ ہجری میں وفات پائی۔اس کے علاوہ بھی سن وفات منقول ہے۔