بلوغ المرام - حدیث 128

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْحَيْضِ حسن وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَتِ النُّفَسَاءُ تَقْعُدُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بَعْدَ نِفَاسِهَا أَرْبَعِينَ. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ إِلَّا النَّسَائِيَّ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي دَاوُدَ. وَفِي لَفْظٍ لَهُ: وَلَمْ يَأْمُرْهَا النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - بِقَضَاءِ صَلَاةِ النِّفَاسِ. وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 128

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: حیض کے احکام ومسائل حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عہدرسالت میں عورتیں بچے کی ولادت کے بعد چالیس روز تک (نماز‘ روزے سے) بیٹھی رہتی تھیں۔ (اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور الفاظ ابوداود کے ہیں۔)اور اس کی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام نفاس میں چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا دینے کا حکم نہیں دیا۔ (اسے حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفاس والی خواتین کی اکثر مدت چالیس روز ہے۔ اس کی کم از کم مدت کوئی نہیں۔ ہاں‘ اگر چالیس روز سے تجاوز کر جائے تو پھر وہ حالت استحاضہ شمار ہوگی اور اس حالت میں نماز روزہ ترک نہ کیے جائیں گے۔ تعلق زن وشو بھی قائم ہو سکتے ہیں‘ البتہ نفاس کا حکم حیض کی طرح ہے۔ نفاس والی عورت کو نماز روزہ کی رخصت ہے‘ مسجد میں نہیں ٹھہر سکتی۔ طواف کعبہ بھی نہیں کر سکتی۔ اور علماء کے ایک گروہ کی رائے کے مطابق وہ تلاوت قرآن اور قرآن کو چھونے سے بھی اجتناب کرے گی۔ اس دوران میں جتنے روزے چھوٹ گئے تھے ان کی دوسرے ایام میں قضا ضرور دے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں دے گی۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب ما جاء في وقت النفساء، حديث:311، 312، والترمذي، الطهارة، حديث:139، وابن ماجه، الطهارة، حديث:648، وأحمد: 6 /300، 302، 304، 309، 310، والحاكم: 1 /175 وصححه، ووافقه الذهبي. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفاس والی خواتین کی اکثر مدت چالیس روز ہے۔ اس کی کم از کم مدت کوئی نہیں۔ ہاں‘ اگر چالیس روز سے تجاوز کر جائے تو پھر وہ حالت استحاضہ شمار ہوگی اور اس حالت میں نماز روزہ ترک نہ کیے جائیں گے۔ تعلق زن وشو بھی قائم ہو سکتے ہیں‘ البتہ نفاس کا حکم حیض کی طرح ہے۔ نفاس والی عورت کو نماز روزہ کی رخصت ہے‘ مسجد میں نہیں ٹھہر سکتی۔ طواف کعبہ بھی نہیں کر سکتی۔ اور علماء کے ایک گروہ کی رائے کے مطابق وہ تلاوت قرآن اور قرآن کو چھونے سے بھی اجتناب کرے گی۔ اس دوران میں جتنے روزے چھوٹ گئے تھے ان کی دوسرے ایام میں قضا ضرور دے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں دے گی۔