كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الزُّهْدِ وَالْوَرَعِ ضعيف وَعَنْ أَنَسٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((الصَّمْتُ حِكْمَةٌ، وَقَلِيلٌ فَاعِلُهُ)). أَخْرَجَهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي ((الشُّعَبِ)) بِسَنَدٍ ضَعِيفٍ. وَصَحَّحَ أَنَّهُ مَوْقُوفٌ مِنْ قَوْلِ لُقْمَانَ الْحَكِيمِ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: دنیا سے بے رغبتی اور پرہیز گاری کا بیان
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خاموشی حکمت و دانائی ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونے والے تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔‘‘ (اسے بیہقی نے شعب الایمان میں ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور انھوں نے کہا: صحیح بات یہ ہے کہ یہ لقمان حکیم کا قول ہے۔)
تشریح :
اس روایت میں خاموش و مہر برلب رہنے کو حکمت و دانائی اور عقلمندی و دانش مندی قرار دیا گیا ہے ۔ یہ گو حضرت لقمان کا قول ہے مگر بہت سی احادیث میں خاموشی کی تائید اور فضول گوئی کی مذمت موجود ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: [مَنْ صَمَتَ نَجَا] ’’جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔‘‘ (مسند أحمد: ۲ /۱۵۹‘ ۱۷۷، وجامع الترمذي‘ صفۃ القیامۃ‘ حدیث:۲۵۰۱) اور ایک حدیث میں ہے: [مَنْ کَانَ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ] ’’جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہمیشہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الأدب‘ حدیث:۶۰۱۸‘ ۶۰۱۹‘ ۶۱۳۵و ۶۴۷۶)
تخریج :
أخرجه البيهقي في شعب الإيمان:4 /264، حدث:5027 وقال: "غلط في هذا عثمان بن سعيد (الكاتب) هذا والصحيح رواية ثابت " عثمان الكاتب ضعيف (تقريب) وله طريق آخر ضعيف جدًا عند القضاعي في مسند الشهاب، حديث:241، وقول لقمان حكيم: أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، حديث:5026، وابن حبان في روضة العقلاء، ص:41 وهوصحيح عن أنس.
اس روایت میں خاموش و مہر برلب رہنے کو حکمت و دانائی اور عقلمندی و دانش مندی قرار دیا گیا ہے ۔ یہ گو حضرت لقمان کا قول ہے مگر بہت سی احادیث میں خاموشی کی تائید اور فضول گوئی کی مذمت موجود ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: [مَنْ صَمَتَ نَجَا] ’’جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔‘‘ (مسند أحمد: ۲ /۱۵۹‘ ۱۷۷، وجامع الترمذي‘ صفۃ القیامۃ‘ حدیث:۲۵۰۱) اور ایک حدیث میں ہے: [مَنْ کَانَ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ] ’’جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ہمیشہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔‘‘ (صحیح البخاري‘ الأدب‘ حدیث:۶۰۱۸‘ ۶۰۱۹‘ ۶۱۳۵و ۶۴۷۶)