كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الزُّهْدِ وَالْوَرَعِ ضعيف وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ، تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ)). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ حَسَنٌ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: دنیا سے بے رغبتی اور پرہیز گاری کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کا بے فائدہ چیزوں کو چھوڑ دینا اس کے حسن اسلام کی دلیل ہے۔‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن اور صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں شرح السنہ کی روایت کا حوالہ دیا ہے اور اسے سنداً صحیح قرار دیا ہے‘ نیز وہاں پر امام نووی رحمہ اللہ کی تحسین کو بھی نوٹ کیا ہے اور اس کے شواہد کا بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محقق کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند إلامام أحمد:۳ /۲۵۶‘ وصحیح سنن ابن ماجہ‘ رقم:۳۲۲۶‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض) 2. اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں جوامع الکلم کی حیثیت حاصل ہے جس کا تعلق اقوال اور افعال دونوں سے ہے۔ 3. دنیا میں انسان کا مقصدِ حیات اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ ایک مومن صادق کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ بے مقصد اور بے فائدہ کام سرانجام ہی نہ دے۔ وہ یہاں وقت کاٹنے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی عبادت اور رضا مندی حاصل کرنے کے لیے آیا ہے‘ اس لیے جو اعمال مقصد حیات کے منافی اور اصلاح دین کے مخالف ہیں وہ سب بے کار اور لایعنی ہیں۔ مالک کا سچا غلام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا جو مالک کو ناپسند اور اس کی رضا کے منافی ہوں۔
تخریج :
أخرجه الترمذي، الزهد، باب 11، حديث:2317، قُرّة ضعّفه الجمهور.
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن اور صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ہمارے فاضل محقق نے سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں شرح السنہ کی روایت کا حوالہ دیا ہے اور اسے سنداً صحیح قرار دیا ہے‘ نیز وہاں پر امام نووی رحمہ اللہ کی تحسین کو بھی نوٹ کیا ہے اور اس کے شواہد کا بھی ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے محقق کے نزدیک بھی اس حدیث کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند إلامام أحمد:۳ /۲۵۶‘ وصحیح سنن ابن ماجہ‘ رقم:۳۲۲۶‘ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض) 2. اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں جوامع الکلم کی حیثیت حاصل ہے جس کا تعلق اقوال اور افعال دونوں سے ہے۔ 3. دنیا میں انسان کا مقصدِ حیات اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ ایک مومن صادق کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ بے مقصد اور بے فائدہ کام سرانجام ہی نہ دے۔ وہ یہاں وقت کاٹنے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی عبادت اور رضا مندی حاصل کرنے کے لیے آیا ہے‘ اس لیے جو اعمال مقصد حیات کے منافی اور اصلاح دین کے مخالف ہیں وہ سب بے کار اور لایعنی ہیں۔ مالک کا سچا غلام ان کاموں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا جو مالک کو ناپسند اور اس کی رضا کے منافی ہوں۔