كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الزُّهْدِ وَالْوَرَعِ حسن وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - يَوْمًا، فَقَالَ: ((يَا غُلَامُ! احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، وَإِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ)). رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: حَسَنٌ صَحِيحٌ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: دنیا سے بے رغبتی اور پرہیز گاری کا بیان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (کھڑا) تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے لڑکے! تو اللہ (کے احکام) کی حفاظت کر‘ اللہ تعالیٰ تیری نگہبانی کرے گا۔ تو اللہ (کے احکام) کی حفاظت کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔ اور جب تو کچھ مانگے تو (صرف) اللہ سے مانگ‘ اور جب تو مدد طلب کرے تو (بس) اللہ سے مدد مانگ۔‘‘ (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور حسن صحیح کہا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث میں خالص توحید کی بہترین انداز میں تعلیم دی گئی ہے۔ 2.اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی مقرر کرد حدود اور اس کے اوامر و نواہی کا ہر وقت پوری طرح خیال رکھا جائے‘ خود بھی ان سے بچنے کی کوشش کی جائے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی جائے۔ 3.اللہ کی حفاظت کا مطلب ہے کہ وہ ایسے بندے کو دنیوی مصائب و آلام سے بچائے گا‘ ان سے بچنے کا راستہ سمجھائے گا اور قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔ 4.اس حدیث کا باقی ماندہ حصہ یوں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اور جان لے کہ اگر ساری دنیا والے مل کر تیرا کچھ سنوارنا چاہیں تو صرف اتنا نفع ہی پہنچا سکیں گے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر نقصان پہنچانا چاہیں تب بھی صرف اتنا ہی پہنچا سکیں گے جتنا اللہ نے لکھ دیا ہے (کیونکہ) تقدیر لکھنے والی قلمیں خشک ہو چکی ہیں اور دفتر لپیٹ کر بند کر دیے گئے ہیں۔ ( اب ان میں اضافے یا کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں۔‘‘)
تخریج :
أخرجه الترمذي، صفة القيامة، باب :59، حديث:2516.
1. اس حدیث میں خالص توحید کی بہترین انداز میں تعلیم دی گئی ہے۔ 2.اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی مقرر کرد حدود اور اس کے اوامر و نواہی کا ہر وقت پوری طرح خیال رکھا جائے‘ خود بھی ان سے بچنے کی کوشش کی جائے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کی جائے۔ 3.اللہ کی حفاظت کا مطلب ہے کہ وہ ایسے بندے کو دنیوی مصائب و آلام سے بچائے گا‘ ان سے بچنے کا راستہ سمجھائے گا اور قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔ 4.اس حدیث کا باقی ماندہ حصہ یوں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اور جان لے کہ اگر ساری دنیا والے مل کر تیرا کچھ سنوارنا چاہیں تو صرف اتنا نفع ہی پہنچا سکیں گے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر نقصان پہنچانا چاہیں تب بھی صرف اتنا ہی پہنچا سکیں گے جتنا اللہ نے لکھ دیا ہے (کیونکہ) تقدیر لکھنے والی قلمیں خشک ہو چکی ہیں اور دفتر لپیٹ کر بند کر دیے گئے ہیں۔ ( اب ان میں اضافے یا کمی بیشی کا کوئی امکان نہیں۔‘‘)