بلوغ المرام - حدیث 1269

كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الزُّهْدِ وَالْوَرَعِ حسن وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ.

ترجمہ - حدیث 1269

کتاب: متفرق مضامین کی احادیث باب: دنیا سے بے رغبتی اور پرہیز گاری کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی نے دوسری قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انھی میں سے ہے۔‘‘ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث تَشَبُّہ بِالْکُفَّار کی حرمت کی دلیل ہے۔ اسی سے علماء نے غیر مسلموں کا فیشن اپنانا مکروہ قرار دیا ہے۔ اس ’’تشبیہ‘‘ کا باب بڑا وسیع ہے۔ اس میں عبادات‘ عادات و اطوار‘ خور و نوش‘ ملبوسات‘ زیب و زینت‘ آداب و رسومات اور رجحان و میلان سب شامل ہیں۔ حدیث میں ان تمام چیزوں کی ممانعت ہے۔ اگر اس مقام پر تنگی داماں کا خوف نہ ہوتا تو ہم یہاں ان کی نصوص بالتفصیل بیان کرتے۔ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب حجاب المرأۃ المسلمۃ کے صفحہ ۷۸تا ۱۰۹ طبع ثالث میں اس موضوع پر نہایت عمدہ بحث کی ہے۔ 2. شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کی بابت اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث کم از کم تشبیہ بالکفار کی حرمت کی متقاضی ہے، اگرچہ اس حدیث کا ظاہری مضمون تشبیہ بالکفار کی صورت میں کفر کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہُ مِنْھُمْ﴾ (المآئدۃ ۵:۵۱) ’’تم میں سے جو بھی انھیں دوست رکھے وہ یقینا انھی میں سے ہے۔‘‘ اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے بیان کی نظیر ہے جس میں انھوں نے فرمایا کہ ’’جس نے مشرکین کے علاقے میں گھر بنایا اور ان کے تہوار والے ایام‘ نیروز اور مہر جان منائے اور ان کے ساتھ مشابہت کرتا رہا حتیٰ کہ وفات پا گیا تو ایسے آدمی کا حشر قیامت کے روز انھی کے ساتھ ہوگا۔‘‘کبھی اسے تشبہ مطلق پر محمول کیا جاتا ہے جو کفر کو واجب کر دیتا ہے اور تشبہ کے بعض پہلوؤں کی حرمت کا مقتضی ہے۔ اور کبھی اس شخص کا ان میں شمار ہونا صرف اتنی مشترک مقدار (قدرِمشترک) پر محمول ہوتا ہے جس میں وہ ان کی مشابہت کرے‘ چنانچہ اگر وہ (قدرِمشترک) کفر ہو یا معصیت‘ یا ان کا شعار ہو تو اس کا حکم بھی وہی ہوگا۔ بہرحال حرمت تشبیہ کی علت اور وجہ صرف اور صرف کفار کے ساتھ تشبیہ ہے‘ چنانچہ اگر تشبیہ ہوگی تو حرمت کا حکم لاگو ہوگا ورنہ نہیں۔ اور تشبہ عام ہے‘ اس کے عموم میں وہ شخص بھی شامل ہے جو کسی کام کو صرف اس وجہ سے کرے کہ کافروں نے اسے کیا ہے۔ اور یہ شاذ ونادر ہے۔ او روہ شخص بھی اس عموم میں شامل ہے جو کسی کام میں اپنے غیر کی پیروی اپنے مقصد و فائدے کے لیے کرتا ہے بشرطیکہ وہ کام اس کے غیر‘ یعنی کافروں کا ایجاد کردہ ہو۔ مگر جس نے کوئی کام کیا اور وہ اتفاقاً عمل غیر کے مشابہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ اخذ نہیں کیا تو اس کا کفار کے ساتھ مشابہ ہونا محل نظر ہے۔ لیکن اس سے بھی منع کیا جاتا ہے تاکہ یہ ان کے ساتھ تشبیہ کا ذریعہ نہ بن جائے اور اس لیے بھی کہ اس میں کفار کی مخالفت ہے جیسا کہ ڈاڑھی کو رنگنے اور مونچھوں کو صاف کرنے کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بالوں کی سفیدی تبدیل کرو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بالوں کو نہ رنگنے میں ان کے ساتھ مشابہت ہمارے ارادے اور عمل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے اور یہ اتفاقی طور پر ان سے عملی موافقت کی بڑی واضح مثال ہے جو محض ہمارے جسم میں پیدا شدہ حالت کو تبدیل نہ کرنے کی بنا پر ہو جاتی ہے۔ پھر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس ممانعت کی انتہا اور نتیجہ اپنی قلبی بصیرت کی روشنی میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں ظاہر اور باطن میں بہت مضبوط ربط اور تعلق ہے اور تشبہ بالکفار‘ ان کے ساتھ دوستی اور باہمی مودت کا سبب بنتا ہے اور دین میں مداہنت و منافقت اختیار کرنے کا موجب ہے اور اس کی وجہ سے ان کے اخلاق اور خبیث عادات اپنے خسارے‘ تمام نقصانات اور غضب الٰہی کے موجبات کے ساتھ مسلمانوں کی صفوں میں سرایت کر جاتی ہیں اور یہ اس دور کی چشم دید حقیقت ہے جس کا ہم آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں۔ (اقتضاء الصراط المستقیم‘ ص:۱۱۶‘ طبع دارالکتاب العربي)
تخریج : أخرجه أبوداود، اللباس، باب في لبس الشهرة، حديث:4031، وأحمد:2 /50، 92، وابن حبان. 1. یہ حدیث تَشَبُّہ بِالْکُفَّار کی حرمت کی دلیل ہے۔ اسی سے علماء نے غیر مسلموں کا فیشن اپنانا مکروہ قرار دیا ہے۔ اس ’’تشبیہ‘‘ کا باب بڑا وسیع ہے۔ اس میں عبادات‘ عادات و اطوار‘ خور و نوش‘ ملبوسات‘ زیب و زینت‘ آداب و رسومات اور رجحان و میلان سب شامل ہیں۔ حدیث میں ان تمام چیزوں کی ممانعت ہے۔ اگر اس مقام پر تنگی داماں کا خوف نہ ہوتا تو ہم یہاں ان کی نصوص بالتفصیل بیان کرتے۔ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب حجاب المرأۃ المسلمۃ کے صفحہ ۷۸تا ۱۰۹ طبع ثالث میں اس موضوع پر نہایت عمدہ بحث کی ہے۔ 2. شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کی بابت اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث کم از کم تشبیہ بالکفار کی حرمت کی متقاضی ہے، اگرچہ اس حدیث کا ظاہری مضمون تشبیہ بالکفار کی صورت میں کفر کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہُ مِنْھُمْ﴾ (المآئدۃ ۵:۵۱) ’’تم میں سے جو بھی انھیں دوست رکھے وہ یقینا انھی میں سے ہے۔‘‘ اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے بیان کی نظیر ہے جس میں انھوں نے فرمایا کہ ’’جس نے مشرکین کے علاقے میں گھر بنایا اور ان کے تہوار والے ایام‘ نیروز اور مہر جان منائے اور ان کے ساتھ مشابہت کرتا رہا حتیٰ کہ وفات پا گیا تو ایسے آدمی کا حشر قیامت کے روز انھی کے ساتھ ہوگا۔‘‘کبھی اسے تشبہ مطلق پر محمول کیا جاتا ہے جو کفر کو واجب کر دیتا ہے اور تشبہ کے بعض پہلوؤں کی حرمت کا مقتضی ہے۔ اور کبھی اس شخص کا ان میں شمار ہونا صرف اتنی مشترک مقدار (قدرِمشترک) پر محمول ہوتا ہے جس میں وہ ان کی مشابہت کرے‘ چنانچہ اگر وہ (قدرِمشترک) کفر ہو یا معصیت‘ یا ان کا شعار ہو تو اس کا حکم بھی وہی ہوگا۔ بہرحال حرمت تشبیہ کی علت اور وجہ صرف اور صرف کفار کے ساتھ تشبیہ ہے‘ چنانچہ اگر تشبیہ ہوگی تو حرمت کا حکم لاگو ہوگا ورنہ نہیں۔ اور تشبہ عام ہے‘ اس کے عموم میں وہ شخص بھی شامل ہے جو کسی کام کو صرف اس وجہ سے کرے کہ کافروں نے اسے کیا ہے۔ اور یہ شاذ ونادر ہے۔ او روہ شخص بھی اس عموم میں شامل ہے جو کسی کام میں اپنے غیر کی پیروی اپنے مقصد و فائدے کے لیے کرتا ہے بشرطیکہ وہ کام اس کے غیر‘ یعنی کافروں کا ایجاد کردہ ہو۔ مگر جس نے کوئی کام کیا اور وہ اتفاقاً عمل غیر کے مشابہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ اخذ نہیں کیا تو اس کا کفار کے ساتھ مشابہ ہونا محل نظر ہے۔ لیکن اس سے بھی منع کیا جاتا ہے تاکہ یہ ان کے ساتھ تشبیہ کا ذریعہ نہ بن جائے اور اس لیے بھی کہ اس میں کفار کی مخالفت ہے جیسا کہ ڈاڑھی کو رنگنے اور مونچھوں کو صاف کرنے کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بالوں کی سفیدی تبدیل کرو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بالوں کو نہ رنگنے میں ان کے ساتھ مشابہت ہمارے ارادے اور عمل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے اور یہ اتفاقی طور پر ان سے عملی موافقت کی بڑی واضح مثال ہے جو محض ہمارے جسم میں پیدا شدہ حالت کو تبدیل نہ کرنے کی بنا پر ہو جاتی ہے۔ پھر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس ممانعت کی انتہا اور نتیجہ اپنی قلبی بصیرت کی روشنی میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں ظاہر اور باطن میں بہت مضبوط ربط اور تعلق ہے اور تشبہ بالکفار‘ ان کے ساتھ دوستی اور باہمی مودت کا سبب بنتا ہے اور دین میں مداہنت و منافقت اختیار کرنے کا موجب ہے اور اس کی وجہ سے ان کے اخلاق اور خبیث عادات اپنے خسارے‘ تمام نقصانات اور غضب الٰہی کے موجبات کے ساتھ مسلمانوں کی صفوں میں سرایت کر جاتی ہیں اور یہ اس دور کی چشم دید حقیقت ہے جس کا ہم آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں۔ (اقتضاء الصراط المستقیم‘ ص:۱۱۶‘ طبع دارالکتاب العربي)