كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الزُّهْدِ وَالْوَرَعِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بِمَنْكِبِي، فَقَالَ: ((كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ)). وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِسَقَمِك، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ. أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: دنیا سے بے رغبتی اور پرہیز گاری کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پکڑ کر فرمایا: ’’(اے ابن عمر!) دنیا میں ایک اجنبی یا راہ چلتے مسافر کی طرح رہ۔‘‘ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے: جب تو شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور جب صبح کرے تو شام کا منتظر نہ رہ اور اپنی تندرستی کے وقت اپنی بیماری کے لیے اور زندگی میں موت کے لیے تیاری کر۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث میں دنیا کی بے ثباتی اور اس کے فانی ہونے کا بیان ہے اور زندگی بسر کرنے کا ایک اصول بتایا گیا ہے کہ دنیا میں انسان کو کس خیال سے رہنا چاہیے۔ دنیا انسان کا گھر نہیں بلکہ مسافر خانہ ہے‘ جیسے مسافر اپنی اصل منزل کی جانب رواں دواں رہتاہے‘ راستے کی چیزوں سے قلبی تعلق وابستہ نہیں کرتا‘ اس کا مطمح نظر اپنی منزل مقصود تک رسائی پانا ہوتا ہے‘ دنیا میں بھی ایک انسان کو بس اسی طرح رہنا چاہیے کہ معلوم نہیں کب رخت سفر باندھنے کا حکم صادر ہو جائے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الرقاق، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: "كن في الدنيا كأنك غريب..."، حديث:6416.
اس حدیث میں دنیا کی بے ثباتی اور اس کے فانی ہونے کا بیان ہے اور زندگی بسر کرنے کا ایک اصول بتایا گیا ہے کہ دنیا میں انسان کو کس خیال سے رہنا چاہیے۔ دنیا انسان کا گھر نہیں بلکہ مسافر خانہ ہے‘ جیسے مسافر اپنی اصل منزل کی جانب رواں دواں رہتاہے‘ راستے کی چیزوں سے قلبی تعلق وابستہ نہیں کرتا‘ اس کا مطمح نظر اپنی منزل مقصود تک رسائی پانا ہوتا ہے‘ دنیا میں بھی ایک انسان کو بس اسی طرح رہنا چاہیے کہ معلوم نہیں کب رخت سفر باندھنے کا حکم صادر ہو جائے۔