بلوغ المرام - حدیث 1266

كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الزُّهْدِ وَالْوَرَعِ صحيح عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ - وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ: ((إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ، لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ، فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 1266

کتاب: متفرق مضامین کی احادیث باب: دنیا سے بے رغبتی اور پرہیز گاری کا بیان حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ اور حضرت نعمان نے اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے کانوں کی طرف بلند کیا‘ آپ فرما رہے تھے : ’’یقینا حلال بھی واضح ہے‘ اور بلاشبہ حرام بھی واضح ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان میں شبہے والی چیزیں ہیں جنھیں لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی۔ چنانچہ جو کوئی شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا۔ اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پھنس گیا‘ جیسے کوئی چرواہا کسی چراگاہ کے گرد (مویشی) چراتا ہو تو ممکن ہے کہ جانور اس میں داخل ہو جائے۔ خبردار! یقینا ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! بے شک اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار! یقینا جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے‘ جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے‘ اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ خبردار! وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. یہ حدیث اصول اسلام میں سے شمار کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حلال اور حرام چیزیں تو واضح ہیں ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے‘ البتہ مشتبہات ایسی چیزیں ہیں جن کی حرمت واضح نہیں یا جن کے بارے میں دلائل دونوں جانب تقریباًمساوی ہیں۔ اس قسم کے مسائل سے بچنا چاہیے اور ظن و تخمین سے کام نہیں لینا چاہیے۔ 2.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدن کی اصلاح اور اس کے بگاڑ کا انحصار دل پر ہے۔ پورے جسم میں اس کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کی ہے۔ تمام اعضائے بدن اس کی رعیت اور عوام ہیں۔ اگر بادشاہ نیک ہو تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر وہ برا ہو تو رعایا بھی بری ہوگی۔ 3. ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن پر قواعد اسلام کا دار و مدار ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، حديث:52، ومسلم، المساقاة، باب أخذ الحلال وترك الشبهات، حديث:1599. 1. یہ حدیث اصول اسلام میں سے شمار کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حلال اور حرام چیزیں تو واضح ہیں ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے‘ البتہ مشتبہات ایسی چیزیں ہیں جن کی حرمت واضح نہیں یا جن کے بارے میں دلائل دونوں جانب تقریباًمساوی ہیں۔ اس قسم کے مسائل سے بچنا چاہیے اور ظن و تخمین سے کام نہیں لینا چاہیے۔ 2.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدن کی اصلاح اور اس کے بگاڑ کا انحصار دل پر ہے۔ پورے جسم میں اس کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کی ہے۔ تمام اعضائے بدن اس کی رعیت اور عوام ہیں۔ اگر بادشاہ نیک ہو تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر وہ برا ہو تو رعایا بھی بری ہوگی۔ 3. ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن پر قواعد اسلام کا دار و مدار ہے۔