كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ صحيح وَعَنْ أَبِي أَيُّوبَ - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ يَلْتَقِيَانِ، فَيُعْرِضُ هَذَا، وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہوتا ہے یہ اپنا منہ ادھر کر لیتا ہے اور وہ ادھر کر لیتا ہے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو مسلمان بھائیوں کی ناراضی ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ہو تو ایسی صورت میں تین روز سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ناراضی کی وجہ دینی معاملہ ہو تو اس کے لیے غالباً کوئی حد نہیں ہے۔ 2. دینی ناراضی تو عین ایمان کی علامت ہے۔ جب تک علت ناراضی موجود ہے‘ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے‘ جب وہ سبب دور ہو جائے تو ناراضی کو بھی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ مومن صادق کے ہاں باہم تعلقات کا سبب دین ہے‘ دنیا نہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأدب، باب الهجرة، حديث:6077، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الهجر فوق ثلاثة أيام بلا عذر شرعى، حديث:2560.
1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو مسلمان بھائیوں کی ناراضی ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ہو تو ایسی صورت میں تین روز سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ناراضی کی وجہ دینی معاملہ ہو تو اس کے لیے غالباً کوئی حد نہیں ہے۔ 2. دینی ناراضی تو عین ایمان کی علامت ہے۔ جب تک علت ناراضی موجود ہے‘ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے‘ جب وہ سبب دور ہو جائے تو ناراضی کو بھی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ مومن صادق کے ہاں باہم تعلقات کا سبب دین ہے‘ دنیا نہیں۔