كِتَابُ الْجَامِعِ بَابُ الْبِرِّ وَالصِّلَةِ صحيح وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ)). قِيلَ: وَهَلْ يَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ: ((نَعَمْ. يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ، فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ، فَيَسُبُّ أُمَّهُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: متفرق مضامین کی احادیث
باب: نیکی اور صلہ رحمی کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے والدین کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔‘‘ کہا گیا: کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دیتا ہے؟ فرمایا: ’’ہاں! وہ کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور وہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی والدہ کو گالی دیتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کام کے لیے سبب بننا گویا خود اس کام کو انجام دینا ہے۔ بالفاظ دیگر حرام چیز کے اسباب بھی حرام ہوتے ہیں‘ اس لیے ایسا کام کرنا یاایسی بات کرنا جس کے نتیجے میں والدین کو گالی دی جائے یا انھیں تکلیف پہنچے‘ حرام ہے‘ لہٰذا اگر اپنے والدین کو گالی سے بچانا ہے تو دوسرے کے والدین کو گالی نہ دو اور نہ انھیں برا بھلا کہو۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأدب، باب لا يسب الرجل والديه، حديث:5973، ومسلم، الأيمان، باب الكبائر وأكبرها، حديث:90.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کام کے لیے سبب بننا گویا خود اس کام کو انجام دینا ہے۔ بالفاظ دیگر حرام چیز کے اسباب بھی حرام ہوتے ہیں‘ اس لیے ایسا کام کرنا یاایسی بات کرنا جس کے نتیجے میں والدین کو گالی دی جائے یا انھیں تکلیف پہنچے‘ حرام ہے‘ لہٰذا اگر اپنے والدین کو گالی سے بچانا ہے تو دوسرے کے والدین کو گالی نہ دو اور نہ انھیں برا بھلا کہو۔