کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْحَيْضِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فِي الَّذِي يَأْتِي امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ - قَالَ: ((يَتَصَدَّقُ بِدِينَارٍ، أَوْ نِصْفِ دِينَارٍ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ وَابْنُ الْقَطَّانِ، وَرَجَّحَ غَيْرَهُمَا وَقْفَهُ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: حیض کے احکام ومسائل
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے آدمی کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ و خیرات کرے۔‘‘ (اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ حاکم اور ابن قطان دونوں نے صحیح قرار دیا ہے۔ اور ان دونوں کے علاوہ دوسرے محدثین نے اس کا موقوف ہونا راجح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
جہاں تک دینار یا نصف دینار خیرات کرنے کا تعلق ہے تو ایک گروہ نے اسے جائز رکھا ہے جبکہ دوسروں نے حدیث میں اضطراب اور عدم صحت ثابت کرکے کفارے کا حکم نہیں دیا۔ پھر جو لوگ کفارے کے قائل ہیں ان میں سے کسی نے کہا ہے کہ دینار یا نصف دینار بیان کرنا راوی کا تردد ہے۔ اور بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ یہاں نوعیت بتانا مقصود ہے کہ اگر حیض کا آغاز ہو تو ایسی حالت میں جماع کرنے والا ایک دینار صدقہ کرے اور اگر آغازِ حیض نہ ہو تو نصف دینار خیرات کرے۔ اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں اختیار دیا گیا ہے‘ خواہ دینار صدقہ کرے خواہ نصف دینار۔ بہرحال یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ ندب و استحباب کے لیے ہے۔ باعتبار دلیل یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ تاہم مخصوص ایام میں جنسی عمل حرام ہے‘ اگر ہو جائے تو صدقہ دینا چاہیے‘ قاعدہ ہے: ﴿ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّـئَاتِ﴾ (ہود۱۱:۱۱۴) ’’نیکیاں گناہوں کا ازالہ کر دیتی ہیں۔‘‘
تخریج :
أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في إتيان الحائض، حديث: 264، والترمذي، الطهارة، حديث:136، والنسائي، الطهارة، حديث:290، وابن ماجه، الطهارة، حديث:640، وأحمد:1 /272، 367، والحاكم في المستدرك:1 /172 وصحيحه، ووافقه الذهبي في تلخيصه بالسكوت عليه.
جہاں تک دینار یا نصف دینار خیرات کرنے کا تعلق ہے تو ایک گروہ نے اسے جائز رکھا ہے جبکہ دوسروں نے حدیث میں اضطراب اور عدم صحت ثابت کرکے کفارے کا حکم نہیں دیا۔ پھر جو لوگ کفارے کے قائل ہیں ان میں سے کسی نے کہا ہے کہ دینار یا نصف دینار بیان کرنا راوی کا تردد ہے۔ اور بعض نے یہ تاویل کی ہے کہ یہاں نوعیت بتانا مقصود ہے کہ اگر حیض کا آغاز ہو تو ایسی حالت میں جماع کرنے والا ایک دینار صدقہ کرے اور اگر آغازِ حیض نہ ہو تو نصف دینار خیرات کرے۔ اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہاں اختیار دیا گیا ہے‘ خواہ دینار صدقہ کرے خواہ نصف دینار۔ بہرحال یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے بلکہ ندب و استحباب کے لیے ہے۔ باعتبار دلیل یہی رائے قابل ترجیح ہے۔ تاہم مخصوص ایام میں جنسی عمل حرام ہے‘ اگر ہو جائے تو صدقہ دینا چاہیے‘ قاعدہ ہے: ﴿ اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّـئَاتِ﴾ (ہود۱۱:۱۱۴) ’’نیکیاں گناہوں کا ازالہ کر دیتی ہیں۔‘‘