بلوغ المرام - حدیث 1229

كِتَابُ الْعِتْقِ بَابُ الْمُدَبَّرِ وَالْمُكَاتَبِ وَأُمِّ الْوَلَدِ صحيح عَنْ جَابِرٍ - رضي الله عنه: أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ أَعْتَقَ غُلَامًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ: ((مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي؟)) فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بِثَمَانِمَائَةِ دِرْهَمٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي لَفْظٍ لِلْبُخَارِيِّ: فَاحْتَاجَ وَفِي رِوَايَةٍ لِلنَّسَائِيِّ: وَكَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ، فَبَاعَهُ بِثَمَانِمَائَةِ دِرْهَمٍ، فَأَعْطَاهُ وَقَالَ: ((اقْضِ دَيْنَكَ)).

ترجمہ - حدیث 1229

کتاب: غلام آزاد کرنے سے متعلق احکام و مسائل باب: مدبَّر‘ مکاتَب اور ام ولد کا بیان حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نے اپنا ایک غلام مدبّر کر دیا اور اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور مال نہ تھا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟‘‘ چنانچہ حضرت نُعَیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ (بخاری و مسلم)اور بخاری کی ایک روایت میں ہے: چنانچہ وہ (انصاری) محتاج ہوگیا۔ اور نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ اس (انصاری) پر قرض تھا تو آپ نے اسے آٹھ سو درہم کے عوض فروخت کیا اور اسے یہ قیمت دے کر فرمایا: ’’اپنا قرض ادا کر۔‘‘
تشریح : 1. یہ حدیث کتاب البیوع میں مختصر گزر چکی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غلام کو مدبر کرنا درست ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ اسے تیسرے حصے میں سے تدبیر کیا جا سکتا ہے، سارے رأس المال سے نہیں۔ 2. اس حدیث سے ’’بولی دینا‘‘ جائز ثابت ہوا‘ یعنی ایک چیز کو فروخت کرنے کے لیے کہنا کہ کون اس چیز کو خریدتا ہے؟ ایک نے کہا: میں اسے اتنے میں خریدتا ہوں۔ دوسرے نے کہا: میں اتنے میں خریدتا ہوں۔ اس طرح گاہک قیمت بڑھاتے جاتے ہیں ۔ مالک جب دیکھتا ہے کہ اب اس کی قیمت ٹھیک لگ گئی ہے تو وہ اسے فروخت کر دیتا ہے۔ آج کل منڈیوں میں عام طور پر سودا جات اسی طرح فروخت ہو رہے ہیں اور یہ طریقہ جائز ہے۔ یاد رہے محض قیمت بڑھانے کے لیے بولی دینا جائز نہیں ہے۔ وضاحت : [حضرت نُعَیْم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ] ان کا لقب نخام تھا۔ ’’نون‘‘ پر فتحہ اور ’’خا‘‘ پر تشدید ہے۔ قریش کے قبیلہ بنوعدی سے تھے لیکن قدیم الاسلام تھے۔ شروع میں اپنا ایمان مخفی رکھا۔ انھوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو بنو عدی نے کہا یہاں سے نہ جاؤ چاہے کسی بھی دین پر قائم رہو‘ کیونکہ یہ بیوگان و یتامیٰ پر خرچ کرتے تھے۔ پھر انھوں نے صلح حدیبیہ والے سال ہجرت فرمائی۔ عہد صدیقی یا فاروقی میں فتوحات شام میں شہادت پائی۔
تخریج : أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع المزايدة، حديث:2141، ومسلم، الأيمان، باب جواز بيع المدبر، حديث:997، بعد حديث:1668، والنسائي، الزكاة، حديث:2547. 1. یہ حدیث کتاب البیوع میں مختصر گزر چکی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ غلام کو مدبر کرنا درست ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ اسے تیسرے حصے میں سے تدبیر کیا جا سکتا ہے، سارے رأس المال سے نہیں۔ 2. اس حدیث سے ’’بولی دینا‘‘ جائز ثابت ہوا‘ یعنی ایک چیز کو فروخت کرنے کے لیے کہنا کہ کون اس چیز کو خریدتا ہے؟ ایک نے کہا: میں اسے اتنے میں خریدتا ہوں۔ دوسرے نے کہا: میں اتنے میں خریدتا ہوں۔ اس طرح گاہک قیمت بڑھاتے جاتے ہیں ۔ مالک جب دیکھتا ہے کہ اب اس کی قیمت ٹھیک لگ گئی ہے تو وہ اسے فروخت کر دیتا ہے۔ آج کل منڈیوں میں عام طور پر سودا جات اسی طرح فروخت ہو رہے ہیں اور یہ طریقہ جائز ہے۔ یاد رہے محض قیمت بڑھانے کے لیے بولی دینا جائز نہیں ہے۔ وضاحت : [حضرت نُعَیْم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ] ان کا لقب نخام تھا۔ ’’نون‘‘ پر فتحہ اور ’’خا‘‘ پر تشدید ہے۔ قریش کے قبیلہ بنوعدی سے تھے لیکن قدیم الاسلام تھے۔ شروع میں اپنا ایمان مخفی رکھا۔ انھوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو بنو عدی نے کہا یہاں سے نہ جاؤ چاہے کسی بھی دین پر قائم رہو‘ کیونکہ یہ بیوگان و یتامیٰ پر خرچ کرتے تھے۔ پھر انھوں نے صلح حدیبیہ والے سال ہجرت فرمائی۔ عہد صدیقی یا فاروقی میں فتوحات شام میں شہادت پائی۔