كِتَاب الْقَضَاءِ بَابُ الدَّعْوَى وَالْبَيِّنَاتِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِالْفَلَاةِ، يَمْنَعُهُ مِنِ ابْنِ السَّبِيلِ; وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَحَلَفَ لَهُ بِاللَّهِ: لَأَخَذَهَا بِكَذَا وَكَذَا، فَصَدَّقَهُ، وَهُوَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ; وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِلدُّنْيَا، فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا وَفَى، وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنْهَا لَمْ يَفِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: قضا سے متعلق احکام و مسائل
باب: دعویٰ اور دلائل کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ان سے کلام کرے گا نہ ان کی جانب نظر (رحمت) کرے گا اور نہ انھیں گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا: (پہلا) وہ آدمی جو بیابان میں بچے ہوئے پانی کے پاس رہ کر کسی مسافر کو اس سے روکتا ہے۔ اور (دوسرا) وہ آدمی جو عصر کے بعد کسی چیز کا دوسرے سے سودا کرتا ہے اور اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں خریدی ہے اور خریدار اسے سچ مان لیتا ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اور(تیسرا) وہ شخص جس نے محض دنیاوی غرض کے لیے کسی بادشاہ کی بیعت کی اگر بادشاہ اسے کچھ دیتا ہے تو وہ وفا کرتا ہے اور اگر وہ اسے کچھ نہیں دیتا تو وہ وفا نہیں کرتا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. اس حدیث کی رو سے زائد از ضرورت پانی کو روک لینا اور ضرورت مندوں کو لینے نہ دینا‘ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنا اور دنیوی غرض کے لیے حاکم وقت کی تائید کرنا‘ رب کائنات کی سخت ناراضی کے موجب اعمال ہیں اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہیں۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کی سزا جس طرح کسی افضل جگہ کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے اسی طرح افضل وقت کے لحاظ سے بھی اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأحكام، باب من بايع رجلاً لا يبايعه إلا للدنيا، حديث:7212، ومسلم، الإيمان، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار والمن بالعطية...، حديث:108.
1. اس حدیث کی رو سے زائد از ضرورت پانی کو روک لینا اور ضرورت مندوں کو لینے نہ دینا‘ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھا کر مال فروخت کرنا اور دنیوی غرض کے لیے حاکم وقت کی تائید کرنا‘ رب کائنات کی سخت ناراضی کے موجب اعمال ہیں اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہیں۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کی سزا جس طرح کسی افضل جگہ کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے اسی طرح افضل وقت کے لحاظ سے بھی اس کی سزا میں اضافہ ہو جاتا ہے۔