كِتَاب الْقَضَاءِ بَابُ الدَّعْوَى وَالْبَيِّنَاتِ حسن وَعَنْ أَبَى مُوسَى [الْأَشْعَرِيِّ]- رضي الله عنه: أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي دَابَّةٍ، لَيْسَ لِوَاحِدٍ مِنْهُمَا بَيِّنَةٌ، فَقَضَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ وَهَذَا لَفْظُهُ، وَقَالَ: إِسْنَادُهُ جَيِّدٌ.
کتاب: قضا سے متعلق احکام و مسائل
باب: دعویٰ اور دلائل کا بیان
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں کا ایک جانور کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ ان میں سے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانور کو ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا دینے کا فیصلہ فرمایا۔ (اسے احمد‘ ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے‘ یہ الفاظ نسائی کے ہیں۔ اور امام نسائی نے کہا ہے کہ اس کی سند جید ہے۔)
تشریح :
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اونٹ یا جانور کو دونوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ تب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو آدھے آدھے کا مستحق قرار دیا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی‘ یعنی ان دونوں کے سوا وہ کسی تیسرے آدمی کے قبضے میں ہوتا تو صرف دعوے سے وہ دونوں حقدار نہیں بن سکتے تھے۔ ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ جانور کسی تیسرے آدمی کے پاس ہو جس کا ان دونوں کے ساتھ کوئی تنازع نہ ہو۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، القضاء، باب الرجلين يدعيان شيئًا وليس لهما بينة، حديث:3613، والنسائي، آداب القضاة، حديث:5426، والسنن الكبرٰى له:3 /487، حديث:5998.
علامہ خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اونٹ یا جانور کو دونوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ تب ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو آدھے آدھے کا مستحق قرار دیا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی‘ یعنی ان دونوں کے سوا وہ کسی تیسرے آدمی کے قبضے میں ہوتا تو صرف دعوے سے وہ دونوں حقدار نہیں بن سکتے تھے۔ ملا علی قاری نے کہا ہے کہ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ جانور کسی تیسرے آدمی کے پاس ہو جس کا ان دونوں کے ساتھ کوئی تنازع نہ ہو۔