كِتَاب الْقَضَاءِ بَابُ الدَّعْوَى وَالْبَيِّنَاتِ صحيح عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ، لَادَّعَى نَاسٌ دِمَاءَ رِجَالٍ، وَأَمْوَالَهُمْ، وَلَكِنِ الْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَلِلْبَيْهَقِيِّ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ: ((الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي، وَالْيَمِينُ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ)).
کتاب: قضا سے متعلق احکام و مسائل
باب: دعویٰ اور دلائل کا بیان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر لوگوں کو محض ان کے دعویٰ کرنے سے حق دے دیا جائے تو لوگ دوسرے لوگوں کے خون اور ان کے اموال کا دعویٰ کرنے لگیں گے لیکن (اصول یہ ہے کہ) مدعا علیہ کے ذمے قسم لازم ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور بیہقی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے: ’’ثبوت مدعی کے ذمے ہے اور قسم اس کے ذمے جو اس کا انکار کرے۔‘‘
تشریح :
اس حدیث میں قضا کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ مدعی اپنا دعویٰ دلائل سے ثابت کرے اور دو گواہ پیش کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو پھر مدعا علیہ قسم دے گا۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، التفسير، باب: ﴿إن الذين يشترون بعهد الله وأيما نهم ثمنًا قليلًا...﴾، حديث:4552، ومسلم، الأقضية، باب اليمين على المدعى عليه، حديث:1711، وحديث البيهقي:8 /123، في سنده مسلم بن خالد الزنجي، وللحديث شواهدفهو حسن.
اس حدیث میں قضا کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ مدعی اپنا دعویٰ دلائل سے ثابت کرے اور دو گواہ پیش کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو پھر مدعا علیہ قسم دے گا۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔