بلوغ المرام - حدیث 121

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْحَيْضِ صحيح وَعَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: كُنَّا لَا نَعُدُّ الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ بَعْدَ الطُّهْرِ شَيْئًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ، وَأَبُو دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ.

ترجمہ - حدیث 121

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: حیض کے احکام ومسائل حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم (ایام ماہواری کے اختتام پر) نہا دھو کر پاک صاف ہونے کے بعد گدلے اور زرد رنگ کی چیز (خارج ہونے) کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ (اسے بخاری اور ابوداود نے روایت کیا ہے اور الفاظ ابوداود کے ہیں۔)
تشریح : 1. ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زرد اور گدلے رنگ کے پانی کو حیض سمجھا اور شمار کیا جاتا تھا اور اس حدیث مذکور میں ہے کہ ہمارے نزدیک ایسے پانی کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ 2. بظاہر ان احادیث میں اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ذرا سا غور کرنے سے یہ اختلاف دور ہو جاتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا رنگت کا پانی ایام حیض کے دوران میں خارج ہو تو اسے حیض شمار کیا جائے گا اور مدت ایام کے بعد اس قسم کے پانی کی کوئی اہمیت نہیں۔ حدیث میں مذکور بَعْدَ الطُّھْرِ کے الفاظ بھی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ 3. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عورتیں ایام ماہواری کے بعد حصول طہارت کے بعد رحم وغیرہ سے گدلے یا زرد رنگ کے پانی کو کوئی اہمیت نہ دیتی تھیں اور نہ اسے حیض شمار کرتی تھیں۔ 4. گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا‘ اگر یہ حیض میں سے شمار ہوتا تو شریعت میں بذریعۂ وحی اس کے متعلق حکم جاری کر دیا جاتا۔ آپ کی اس پر خاموشی‘ تقریری حدیث کہلاتی ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا ] ان کا اسم گرامی نُسَیْـبَہ (تصغیر کے ساتھ) تھا۔ کعب کی بیٹی تھیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حارث کی بیٹی تھیں۔ یہ بزرگ ترین صحابیات میں سے تھیں۔ غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتی تھیں۔ مریضوں کی تیمار داری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ غزوئہ احد میں بہادر مردوں کی طرح لڑیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے غسل کے وقت یہ موجود تھیں۔ انھوں نے بڑی صفائی سے ان کو نہلایا۔ بصرہ کے دوران اقامت میں ان سے علماء و تابعین کی کثیر تعداد نے احادیث اخذ کیں۔ ان کی حدیث غسل میت کے بارے میں اصل ہے‘ اور ان کا شمار بصریوں میں ہوتا ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الحيض، باب الصفرة والكدرة في غير أيام الحيض، حديث: 326، وأبوداود، الطهارة، باب في المرأة تري الصفرة والكدرة بعد الطهر، حديث:307. 1. ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زرد اور گدلے رنگ کے پانی کو حیض سمجھا اور شمار کیا جاتا تھا اور اس حدیث مذکور میں ہے کہ ہمارے نزدیک ایسے پانی کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ 2. بظاہر ان احادیث میں اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ذرا سا غور کرنے سے یہ اختلاف دور ہو جاتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا رنگت کا پانی ایام حیض کے دوران میں خارج ہو تو اسے حیض شمار کیا جائے گا اور مدت ایام کے بعد اس قسم کے پانی کی کوئی اہمیت نہیں۔ حدیث میں مذکور بَعْدَ الطُّھْرِ کے الفاظ بھی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ 3. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عورتیں ایام ماہواری کے بعد حصول طہارت کے بعد رحم وغیرہ سے گدلے یا زرد رنگ کے پانی کو کوئی اہمیت نہ دیتی تھیں اور نہ اسے حیض شمار کرتی تھیں۔ 4. گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا‘ اگر یہ حیض میں سے شمار ہوتا تو شریعت میں بذریعۂ وحی اس کے متعلق حکم جاری کر دیا جاتا۔ آپ کی اس پر خاموشی‘ تقریری حدیث کہلاتی ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا ] ان کا اسم گرامی نُسَیْـبَہ (تصغیر کے ساتھ) تھا۔ کعب کی بیٹی تھیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حارث کی بیٹی تھیں۔ یہ بزرگ ترین صحابیات میں سے تھیں۔ غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتی تھیں۔ مریضوں کی تیمار داری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ غزوئہ احد میں بہادر مردوں کی طرح لڑیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے غسل کے وقت یہ موجود تھیں۔ انھوں نے بڑی صفائی سے ان کو نہلایا۔ بصرہ کے دوران اقامت میں ان سے علماء و تابعین کی کثیر تعداد نے احادیث اخذ کیں۔ ان کی حدیث غسل میت کے بارے میں اصل ہے‘ اور ان کا شمار بصریوں میں ہوتا ہے۔