بلوغ المرام - حدیث 1205

كِتَاب الْقَضَاءِ بَابُ الشَّهَادَاتِ صحيح وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضي الله عنه: أَنَّهُ خَطَبَ فَقَالَ: إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالْوَحْيِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَإِنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمْ الْآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

ترجمہ - حدیث 1205

کتاب: قضا سے متعلق احکام و مسائل باب: شہادتوں سے متعلق احکام و مسائل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگوں کا مؤاخذہ وحی کے ذریعے سے ہوتا تھا۔ اب وحی بند ہو چکی ہے اب ہم تمھارا مؤاخذہ تمھارے ان اعمال کی بنا پر کریں گے جو ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس اثر سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی اور آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ گویا نبوت کی تکمیل ہوگئی۔ اب نہ کوئی نیا نبی و رسول آئے گا اور نہ آسمان سے وحی نازل ہو گی۔ اب اگر کوئی اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تو وہ سراسر دروغ گو‘ کذاب‘ دجال‘ مفتری اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ 2.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تو لوگوں کے بارے میں معلومات کا ذریعہ وحی الٰہی تھی مگر اب ایک شخص کے رازوں اور بھیدوں کی جستجو اور تفتیش کیے بغیر اور ان کا سراغ لگائے بغیر ہم اس کے ظاہری حالات و اعمال کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ اگر اس کے ظاہری اعمال و احوال شک و شبہ سے محفوظ ہیں تو وہ قابل اعتبار ہے اور اس کی گواہی مقبول ہے ورنہ نہیں۔
تخریج : أخرجه البخاري، الشهادات، باب الشهداء العدول، حديث:2641. 1. اس اثر سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آتی تھی اور آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ گویا نبوت کی تکمیل ہوگئی۔ اب نہ کوئی نیا نبی و رسول آئے گا اور نہ آسمان سے وحی نازل ہو گی۔ اب اگر کوئی اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے تو وہ سراسر دروغ گو‘ کذاب‘ دجال‘ مفتری اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ 2.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تو لوگوں کے بارے میں معلومات کا ذریعہ وحی الٰہی تھی مگر اب ایک شخص کے رازوں اور بھیدوں کی جستجو اور تفتیش کیے بغیر اور ان کا سراغ لگائے بغیر ہم اس کے ظاہری حالات و اعمال کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔ اگر اس کے ظاہری اعمال و احوال شک و شبہ سے محفوظ ہیں تو وہ قابل اعتبار ہے اور اس کی گواہی مقبول ہے ورنہ نہیں۔