كِتَاب الْقَضَاءِ بَابُ الشَّهَادَاتِ صحيح وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِنَّ خَيْرَكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَكُونُ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلَا يُوفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: قضا سے متعلق احکام و مسائل
باب: شہادتوں سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ ہیں‘ پھر ان کے بعد والے‘ پھر ان کے بعد والے‘ پھر ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے اور ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خائن ہوں گے‘ امین نہیں ہوں گے۔ نذر یں مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا نمایاں ہوگا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث سے ازخود شہادت دینے کی مذمت ہوتی ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس کی مدح و تعریف کی گئی ہے۔ تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرنا‘ باطل طریقے سے کھا پی جانا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا مقصود ہو۔ حدیث کے سیاق میں غور و تدبر کرنے والا شخص یہ واضح فرق معلوم کر سکتا ہے۔ 2. ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ طلب سے پہلے ازخود شہادت دینا بہتر اور عمدہ طریقہ ہے جبکہ یہ شہادت حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی ہو اور قبیح اس صورت میں ہے کہ جب حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی جائے۔ 3. اس حدیث میں بہترین زمانے کی نشاندہی ہے جس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ 4.یہ فضیلت جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے فرداً فرداً بھی ہو سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی بھی۔ لیکن اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ ہر اعتبار سے افضل ہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الشهادات، باب لايشهد على شهادة جور إذا أشهد، حديث:2651، ومسلم، فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة....، حديث:2535.
1. یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث سے ازخود شہادت دینے کی مذمت ہوتی ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس کی مدح و تعریف کی گئی ہے۔ تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرنا‘ باطل طریقے سے کھا پی جانا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا مقصود ہو۔ حدیث کے سیاق میں غور و تدبر کرنے والا شخص یہ واضح فرق معلوم کر سکتا ہے۔ 2. ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ طلب سے پہلے ازخود شہادت دینا بہتر اور عمدہ طریقہ ہے جبکہ یہ شہادت حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی ہو اور قبیح اس صورت میں ہے کہ جب حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی جائے۔ 3. اس حدیث میں بہترین زمانے کی نشاندہی ہے جس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ 4.یہ فضیلت جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے فرداً فرداً بھی ہو سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی بھی۔ لیکن اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ ہر اعتبار سے افضل ہیں۔