کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْحَيْضِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ جَحْشٍ شَكَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - الدَّمَ، فَقَالَ: ((اُمْكُثِي قَدْرَ مَا كَانَتْ تَحْبِسُكِ حَيْضَتُكِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي))، فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ كُلَّ صَلَاةٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ: ((وَتَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ)). وَهِيَ لِأَبِي دَاوُدَ وَغَيْرِهِ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: حیض کے احکام ومسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استحاضے کے خون کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: ’’تمھارے ماہواری کے ایام جس قدر پہلے (سے متعین تھے اور نماز روزے سے) روکتے تھے‘ اب بھی اتنے دن ٹھہری رہ۔ پھراس کے بعد غسل کر لے۔‘‘ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اس کے بعد ہر نماز کے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔) اور بخاری کی روایت میں ہے: ’’پھر ہر نماز کے لیے (ازسر نو) وضو کر لیا کر۔‘‘ ابوداود اور دیگر محدثین نے اس حدیث کو دوسرے طریق (سند) سے روایت کیاہے۔
تشریح :
1. اس حدیث اور اس باب میں بیان شدہ احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ مستحاضہ‘ استحاضے اور حیض کے خون میں تین میں سے کسی ایک بنیاد پر فرق کرسکتی ہے۔ پہلی صورت دونوں خونوں میں تمیز (پہچان) کی ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ ایام ماہواری کا خون سیاہ رنگت کا اور گاڑھا ہوتا ہے‘ اس کی بو بھی بڑی کریہہ ہوتی ہے۔ اور استحاضے کے خون کی رنگت سرخ ہوتی ہے اور وہ زردی مائل اور رقیق‘ یعنی پتلا ہوتا ہے۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ خون استحاضہ کے جاری ہونے سے پہلے اس عورت کی معمول بہ عادت کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ کتنے روز تک ایام ماہواری جاری رہتے تھے۔ یا پھر تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی ہم عمر اور ہم مزاج خواتین پر اس کو قیاس کیا جائے گا کہ ایسے مزاج اور اتنی عمر کی خواتین کو کتنے دن ایام ماہواری آسکتے ہیں یا آیا کرتے ہیں۔ 2. اور اگر مستحاضہ میں ایک سے زائد علامات جمع ہو جائیں تو پھر زیادہ قوی طریقے اور واضح دلیل سے اس کا تعین ہو سکے گا۔ 3. دو یا تین علامات اگر باہم متعارض ہوں تو پھر بغیر تردد و شک کے حیض کے خون کے سیاہ رنگ کو مقدم رکھا جائے گا اور عقل بھی اس کو مقدم رکھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر عادت کا لحاظ رکھا جائے گا‘ پھر ہم عمر اور ہم مزاج عورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔ 4. مندرجہ بالا مذکورہ علامتوں میں امتیاز و فرق کرنا نہایت آسان اور سہل ہے۔ عقلمند بلکہ کند ذہن عورت بھی اس فرق کو بآسانی اخذ کر سکتی ہے۔ 5. جس کی طرف فقہاء کی جماعت بالخصوص احناف گئے ہیں‘ وہ بحث بڑی دقیق‘ گنجلک اور مغلق ہے۔ وہ عورتوں کے فہم و عقل سے بعید بلکہ بہت ہی دور ہے‘ نیز یہ احادیث بھی اس مفہوم کا انکار کرتی ہیں۔ شریعت بیضاء جو آسان فہم ہے‘ وہ بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ 6. حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ہر نماز کے لیے غسل فرمایا کرتی تھیں۔ اس غسل کی نوعیت جمہور کے نزدیک تطوع (نفل) کی ہے ورنہ شریعت نے مستحاضہ پر ہر نماز کے لیے غسل کرنا فرض قرار نہیں دیا۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کی تائید کی ہے۔ 7. امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ کسی صحیح حدیث سے مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت نیا غسل کرنا ثابت نہیں۔ مستحاضہ اپنے مقرر ایام ماہواری پورے ہونے کے بعد غسل کرے‘ اس کے بعد ہر نماز کے لیے استنجا کر کے وضو کرے اور نماز ادا کرے۔ 8.مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مستحاضہ کو کسی نہ کسی شناخت کرانے والی علامت کی جانب توجہ کرنی چاہیے۔ پھر جس علامت سے اس کو حیض کی پہچان ہوجائے‘ اسی پر کاربند ہو جائے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ] بعض کا خیال ہے کہ اس سے حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا ہی مراد ہیں‘ حالانکہ ایسا نہیں بلکہ صحیح اور درست یہ ہے کہ یہ ان کی بہن تھیں۔ یہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ صحیح مسلم کی روایت کی رو سے انھیں مسلسل سات سال تک استحاضے کا مرض لاحق رہا۔ انھوں نے ۴۴ہجری میں وفات پائی۔ بعض نے کہا ہے کہ جحش کی تین بیٹیاں تھیں۔ تینوں عارضۂ استحاضہ کا شکار تھیں: ایک ام المومنین زینب‘ دوسری حمنہ اور تیسری ام حبیبہ رضی اللہ عنہن ۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس عارضے سے محفوظ تھیں۔ کہتے ہیں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دس خواتین ایسی تھیں جو استحاضے کے عارضے میں مبتلا رہتی تھیں۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الحيض، باب المستحاضة وغسلها وصلاتها، حديث:334، والبخاري، الوضوء، حديث:228، وأبوداود، الطهارة، حديث:298.
1. اس حدیث اور اس باب میں بیان شدہ احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ مستحاضہ‘ استحاضے اور حیض کے خون میں تین میں سے کسی ایک بنیاد پر فرق کرسکتی ہے۔ پہلی صورت دونوں خونوں میں تمیز (پہچان) کی ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ ایام ماہواری کا خون سیاہ رنگت کا اور گاڑھا ہوتا ہے‘ اس کی بو بھی بڑی کریہہ ہوتی ہے۔ اور استحاضے کے خون کی رنگت سرخ ہوتی ہے اور وہ زردی مائل اور رقیق‘ یعنی پتلا ہوتا ہے۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ خون استحاضہ کے جاری ہونے سے پہلے اس عورت کی معمول بہ عادت کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ کتنے روز تک ایام ماہواری جاری رہتے تھے۔ یا پھر تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی ہم عمر اور ہم مزاج خواتین پر اس کو قیاس کیا جائے گا کہ ایسے مزاج اور اتنی عمر کی خواتین کو کتنے دن ایام ماہواری آسکتے ہیں یا آیا کرتے ہیں۔ 2. اور اگر مستحاضہ میں ایک سے زائد علامات جمع ہو جائیں تو پھر زیادہ قوی طریقے اور واضح دلیل سے اس کا تعین ہو سکے گا۔ 3. دو یا تین علامات اگر باہم متعارض ہوں تو پھر بغیر تردد و شک کے حیض کے خون کے سیاہ رنگ کو مقدم رکھا جائے گا اور عقل بھی اس کو مقدم رکھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر عادت کا لحاظ رکھا جائے گا‘ پھر ہم عمر اور ہم مزاج عورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔ 4. مندرجہ بالا مذکورہ علامتوں میں امتیاز و فرق کرنا نہایت آسان اور سہل ہے۔ عقلمند بلکہ کند ذہن عورت بھی اس فرق کو بآسانی اخذ کر سکتی ہے۔ 5. جس کی طرف فقہاء کی جماعت بالخصوص احناف گئے ہیں‘ وہ بحث بڑی دقیق‘ گنجلک اور مغلق ہے۔ وہ عورتوں کے فہم و عقل سے بعید بلکہ بہت ہی دور ہے‘ نیز یہ احادیث بھی اس مفہوم کا انکار کرتی ہیں۔ شریعت بیضاء جو آسان فہم ہے‘ وہ بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ 6. حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ہر نماز کے لیے غسل فرمایا کرتی تھیں۔ اس غسل کی نوعیت جمہور کے نزدیک تطوع (نفل) کی ہے ورنہ شریعت نے مستحاضہ پر ہر نماز کے لیے غسل کرنا فرض قرار نہیں دیا۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کی تائید کی ہے۔ 7. امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ کسی صحیح حدیث سے مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت نیا غسل کرنا ثابت نہیں۔ مستحاضہ اپنے مقرر ایام ماہواری پورے ہونے کے بعد غسل کرے‘ اس کے بعد ہر نماز کے لیے استنجا کر کے وضو کرے اور نماز ادا کرے۔ 8.مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مستحاضہ کو کسی نہ کسی شناخت کرانے والی علامت کی جانب توجہ کرنی چاہیے۔ پھر جس علامت سے اس کو حیض کی پہچان ہوجائے‘ اسی پر کاربند ہو جائے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ] بعض کا خیال ہے کہ اس سے حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا ہی مراد ہیں‘ حالانکہ ایسا نہیں بلکہ صحیح اور درست یہ ہے کہ یہ ان کی بہن تھیں۔ یہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ صحیح مسلم کی روایت کی رو سے انھیں مسلسل سات سال تک استحاضے کا مرض لاحق رہا۔ انھوں نے ۴۴ہجری میں وفات پائی۔ بعض نے کہا ہے کہ جحش کی تین بیٹیاں تھیں۔ تینوں عارضۂ استحاضہ کا شکار تھیں: ایک ام المومنین زینب‘ دوسری حمنہ اور تیسری ام حبیبہ رضی اللہ عنہن ۔ مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اس عارضے سے محفوظ تھیں۔ کہتے ہیں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دس خواتین ایسی تھیں جو استحاضے کے عارضے میں مبتلا رہتی تھیں۔