کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْحَيْضِ ضعيف وَعَنْ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَبِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - أَسْتَفْتِيهِ، فَقَالَ: ((إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ، أَوْ سَبْعَةً، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا اسْتَنْقَأْتِ فَصَلِّي أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ، أَوْ ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ، وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُكَ، وَكَذَلِكَ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِي حِينَ تَطْهُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرِ جَمِيعًا، ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، فَافْعَلِي. وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ)). قَالَ: ((وَهُوَ أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ)). رَوَاهُ الْخَمْسَةُ إِلَّا النَّسَائِيَّ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَحَسَّنَهُ الْبُخَارِيُّ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: حیض کے احکام ومسائل
حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضے میں مبتلا رہتی تھی جو کثرت سے آتا رہتا تھا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں استفسار کے لیے حاضر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’ یہ تو شیطان کی چوک (لات مارنا) ہے‘ لہٰذا تو چھ یا سات ایام کو ایام حیض شمار کر کے پھر نہا لے۔ جب تو اچھی طرح پاک صاف ہو جائے تو پھر چوبیس یا تئیس دن روزے رکھ اور نماز پڑھ۔ یقینا یہ تیرے لیے کافی ہے۔ اور ہر ماہ اسی طرح کر لیا کر جیسا کہ حیض والی خواتین کرتی ہیں۔ پھر اگر تم میں ظہر کو ذرا مؤخر کرنے اور عصر کو ذرا مقدم کرنے کی ہمت و طاقت ہے تو پھر غسل کر لے جب کہ پاک صاف ہو جائے اور ظہر و عصر دونوں کو اکٹھا کرکے پڑھ لے۔ پھر مغرب کو مؤخر اور عشاء کو ذرا مقدم کر کے غسل کر لے اور دونوں نمازوں کو جمع کر لے‘ یعنی اگر تو یہ طاقت رکھتی ہے تو ایسا کرلے۔ اور صبح کی نماز کے لیے الگ غسل کر لے اور نماز پڑھ لے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’دونوں باتوں میں سے مجھے یہ زیادہ پسند اور محبوب ہے۔‘‘ (اسے نسائی کے علاوہ باقی پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے اور بخاری نے حسن کہا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو دن رات میں تین مرتبہ غسل کرنے کا حکم دیا: ایک ظہر اور عصر کے لیے‘ دوسرا مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرا نماز فجر کے لیے۔ 2. اس سے پہلی حدیث میں فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو ہر نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ استحاضے کے مرض میں مبتلا عورت پر غسل واجب نہیں ہے‘ البتہ ہر نماز کے لیے ازسرنو وضو ضرور فرض ہے۔ غسل بس مستحب ہے‘ وہ بھی صحت اور موسم اگر ساتھ دیں ورنہ چنداں ضرورت نہیں۔ راویٔ حدیث: [حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا ] دونوں اسموں کے پہلے حرف پر فتحہ اور دوسرا ساکن ہے۔ یہ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔ پہلے یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ غزوۂ احد میں حضرت مصعب رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو یہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آگئیں۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الطهارة، باب من قال إذا أقبلت الحيضة تدع الصلاة، حديث: 287، والترمذي، الطهارة، حديث:128، وابن ماجه، الطهارة، حديث:622، 627، وأحمد: 6 /439، الزهري عنعن.
1. اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو دن رات میں تین مرتبہ غسل کرنے کا حکم دیا: ایک ظہر اور عصر کے لیے‘ دوسرا مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرا نماز فجر کے لیے۔ 2. اس سے پہلی حدیث میں فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو ہر نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ استحاضے کے مرض میں مبتلا عورت پر غسل واجب نہیں ہے‘ البتہ ہر نماز کے لیے ازسرنو وضو ضرور فرض ہے۔ غسل بس مستحب ہے‘ وہ بھی صحت اور موسم اگر ساتھ دیں ورنہ چنداں ضرورت نہیں۔ راویٔ حدیث: [حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا ] دونوں اسموں کے پہلے حرف پر فتحہ اور دوسرا ساکن ہے۔ یہ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔ پہلے یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ غزوۂ احد میں حضرت مصعب رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو یہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آگئیں۔