كِتَاب الْأَيْمَانُ وَالنُّذُورُ بَاب الْأَيْمَانُ وَالنُّذُورُ صحيح وَعَنْ عُمَرَ - رضي الله عنه - قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ; أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ. قَالَ: ((فَأَوْفِ بِنَذْرِكَ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَزَادَ الْبُخَارِيُّ فِي رِوَايَةٍ فَاعْتَكَفَ لَيْلَةً.
کتاب: قسموں اور نذروں سے متعلق احکام و مسائل
باب: قسموں اور نذروں سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں نے زمانۂ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنی نذر پوری کرو۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے: پھر انھوں نے ایک رات اعتکاف کیا۔
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر نے حالت کفر میں جو نذر مانی ہو‘ اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ غیر شرعی نہ ہو۔ امام بخاری‘ امام ابن جریر رحمہم اللہ اور شوافع کی ایک جماعت کی رائے یہی ہے مگر جمہور کے نزدیک کافر کی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی تو پوری کرنے کا کیا سوال‘ اس لیے انھوں نے اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے۔ بہرحال حدیث کے ظاہر سے پہلی رائے کی تائید ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الاعتكاف، باب الاعتكاف ليلًا، حديث:2032، ومسلم، الأيمان، باب نذر الكافر وما يفعل فيه إذا أسلم، حديث:1656.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کافر نے حالت کفر میں جو نذر مانی ہو‘ اسلام لانے کے بعد اسے پورا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ غیر شرعی نہ ہو۔ امام بخاری‘ امام ابن جریر رحمہم اللہ اور شوافع کی ایک جماعت کی رائے یہی ہے مگر جمہور کے نزدیک کافر کی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی تو پوری کرنے کا کیا سوال‘ اس لیے انھوں نے اس حدیث کو استحباب پر محمول کیا ہے۔ بہرحال حدیث کے ظاہر سے پہلی رائے کی تائید ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔