کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْحَيْضِ ضعيف عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ كَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِنَّ دَمَ الْحَيْضِ دَمٌ أَسْوَدُ يُعْرَفُ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَمْسِكِي مِنَ الصَّلَاةِ، فَإِذَا كَانَ الْآخَرُ فَتَوَضَّئِي، وَصَلِّي)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَاسْتَنْكَرَهُ أَبُو حَاتِمٍ. وَفِي حَدِيثِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ عِنْدَ أَبِي دَاوُدَ: لِتَجْلِسْ فِي مِرْكَنٍ، فَإِذَا رَأَتْ صُفْرَةً فَوْقَ الْمَاءِ، فَلْتَغْتَسِلْ لِلظُّهْرِ وَالْعَصْرِ غُسْلًا وَاحِدًا، وَتَغْتَسِلْ لِلْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ غُسْلًا وَاحِدًا، وَتَغْتَسِلْ لِلْفَجْرِ غُسْلًا، وَتَتَوَضَّأْ فِيمَا بَيْنَ ذَلِكَ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: حیض کے احکام ومسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا استحاضے کی (دائمی) مریضہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا: ’’حیض کے خون کی رنگت سیاہ ہوتی ہے‘ اسے آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ جن ایام میں یہ خون آرہا ہو تو ان ایام میں نماز چھوڑ دو اور جب دوسرے ایام ہوں تو وضو کر کے نماز پڑھ لیا کرو۔‘‘ (اسے ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے‘ ابن حبان اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور ابوحاتم نے منکر کہا ہے۔)ابوداود میں حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں ہے: ’’ایک ٹب میں بیٹھ جائے اور جب وہ پانی کے اوپر زردی دیکھے تو ظہر اور عصر دونوں نمازوں کے لیے ایک غسل کر لے اور اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لیے ایک غسل کر لے اور نماز فجر کے لیے بھی ایک غسل کر لے اور ان کے درمیان میں وضو کر لے۔‘‘
تشریح :
1. نوجوان عورت کو تین طرح کے خون سے واسطہ پڑتا ہے: ایک حیض (ایام ماہواری)‘ دوسرا خون نفاس جو بچے کی پیدائش سے لے کر چالیس ایام یا کم و بیش جاری رہتا ہے اور تیسرا خون استحاضہ۔ 2.استحاضہ کا خون اسے کہتے ہیں جو ایام ماہواری اور نفاس کے چالیس دنوں کے علاوہ جاری رہے۔ 3. حیض کی اقل مدت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تین روز سے لے کر دس روز تک ہو سکتا ہے۔ ملکی‘ موسمی اور عورتوں کی طبائع کے اعتبار سے دونوں ائمہ کی رائے اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے۔ ویسے ہر عورت کو اپنی طبیعت اور عادت کی روشنی میں علم ہوتا ہے کہ اس کے ایام کی تعداد کتنی ہے۔ اس تعداد سے زیادہ خون جاری رہے تو اسے استحاضہ قرار دے کر اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ راویٔ حدیث: [حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ] آپ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ اپنے خاوند کے ساتھ ہجرت حبشہ کی‘ وہاں اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد سے نوازا‘ جن میں سے ایک لڑکے کا نام عبداللہ ہے۔ غزوئہ موتہ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد انھیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجیت میں لے لیا۔ اب ان کے بطن سے محمد نے جنم لیا جو محمد بن ابی بکر کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجیت میں لے لیا اور ان کے بطن سے یحییٰ پیدا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے خوابوں کی تعبیر دریافت فرمایا کرتے تھے۔ ان کی وفات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ ذہن نشین رہے کہ عُمَیْس عربی قواعد کی رو سے عَمِیس کی تصغیر ہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الطهارة، باب إذا أقبلت الحيضة تدع الصلاة، حديث:286، والنسائي، الطهارة، حديث:363، وابن حبان(الإحسان):2 / 318، حديث:1345، الزهري مدلس وعنعن* وأبوداود، الطهارة، حديث:296 من حديث أسماء بنت عميس رضي الله عنها وسنده ضعيف [الزهري عنعن].
1. نوجوان عورت کو تین طرح کے خون سے واسطہ پڑتا ہے: ایک حیض (ایام ماہواری)‘ دوسرا خون نفاس جو بچے کی پیدائش سے لے کر چالیس ایام یا کم و بیش جاری رہتا ہے اور تیسرا خون استحاضہ۔ 2.استحاضہ کا خون اسے کہتے ہیں جو ایام ماہواری اور نفاس کے چالیس دنوں کے علاوہ جاری رہے۔ 3. حیض کی اقل مدت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تین روز سے لے کر دس روز تک ہو سکتا ہے۔ ملکی‘ موسمی اور عورتوں کی طبائع کے اعتبار سے دونوں ائمہ کی رائے اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے۔ ویسے ہر عورت کو اپنی طبیعت اور عادت کی روشنی میں علم ہوتا ہے کہ اس کے ایام کی تعداد کتنی ہے۔ اس تعداد سے زیادہ خون جاری رہے تو اسے استحاضہ قرار دے کر اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ راویٔ حدیث: [حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ] آپ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ اپنے خاوند کے ساتھ ہجرت حبشہ کی‘ وہاں اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد سے نوازا‘ جن میں سے ایک لڑکے کا نام عبداللہ ہے۔ غزوئہ موتہ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد انھیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجیت میں لے لیا۔ اب ان کے بطن سے محمد نے جنم لیا جو محمد بن ابی بکر کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجیت میں لے لیا اور ان کے بطن سے یحییٰ پیدا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے خوابوں کی تعبیر دریافت فرمایا کرتے تھے۔ ان کی وفات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ ذہن نشین رہے کہ عُمَیْس عربی قواعد کی رو سے عَمِیس کی تصغیر ہے۔