كِتَاب الْأَطْعِمَةِ بَاب الْأَضَاحِيِّ صحيح وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - رضي الله عنه - قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ أُقَسِّمَ لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا عَلَى الْمَسَاكِينِ، وَلَا أُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا مِنْهَا شَيْئًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: کھانے سے متعلق احکام و مسائل
باب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے قربانی کے اونٹوں کی نگرانی پر مامور کیا اور مجھے حکم دیا کہ میں ان کے گوشت‘ کھالیں اور جھول مساکین میں تقسیم کر دوں اور قصاب کی اجرت میں اس میں سے کچھ بھی نہ دوں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. اس حدیث میں قربانی کے اونٹوں سے مراد حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربان کردہ وہ اونٹ ہیں جنھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے۔ ان کی تعداد ایک سو تھی۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت‘ اس کا چمڑا اور اس سے متعلق سامان‘ پالان اور رسی وغیرہ سب کچھ خیرات کر دینا چاہیے اور قصاب کو اجرت اس گوشت میں سے نہیں دی جا سکتی۔ اجرت و معاوضہ الگ سے دینا چاہیے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الحج، باب لا يعطي الجزار من الهدي شيئًا، حديث:1716، 1717، ومسلم، الحج، باب الصدقة بلحوم الهدايا، وجلودها وجلالها...، حديث:1317.
1. اس حدیث میں قربانی کے اونٹوں سے مراد حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربان کردہ وہ اونٹ ہیں جنھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے۔ ان کی تعداد ایک سو تھی۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت‘ اس کا چمڑا اور اس سے متعلق سامان‘ پالان اور رسی وغیرہ سب کچھ خیرات کر دینا چاہیے اور قصاب کو اجرت اس گوشت میں سے نہیں دی جا سکتی۔ اجرت و معاوضہ الگ سے دینا چاہیے۔