كِتَاب الْأَطْعِمَةِ بَاب الْأَضَاحِيِّ صحيح وَعَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ - رضي الله عنه - قَالَ: شَهِدْتُ الْأَضْحَى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ بِالنَّاسِ، نَظَرَ إِلَى غَنَمٍ قَدْ ذُبِحَتْ، فَقَالَ: ((مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيَذْبَحْ شَاةً مَكَانَهَا، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ ذَبَحَ فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: کھانے سے متعلق احکام و مسائل
باب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عید الاضحی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھا۔ چنانچہ جب آپ لوگوں کو نماز پڑھا چکے تو دیکھا کہ ایک بکری ذبح کی ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’جس نے نماز سے پہلے ذبح کیا وہ اس کی جگہ دوسری بکری ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے۔ اگر کسی نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔ 2. نماز عید سے مراد عید کی وہ باجماعت نماز ہے جو امام کی اقتدا میں ادا کی جائے اور اس کے بعد خطبہ مسنونہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جب باجماعت نماز عید ادا کر لی جائے اور خطبہ مسنونہ بھی ہو چکے‘ تب قربانی کی جائے‘ پہلے نہیں۔ اس حکم میں دیہاتی اور شہری سبھی برابر کے شامل ہیں۔ مختلف اقوال میں سے یہی قول راجح ہے۔ 3.قربانی کا آخری وقت کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کی شام تک اس کا آخری وقت ہے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کی ۱۳ تاریخ کی شام تک۔ داود ظاہری اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک منیٰ میں تو بارہ ذوالحجہ کی شام تک اور اس کے سوا صرف قربانی کے دن کی شام تک۔ اور ایک جماعت کی رائے یہ بھی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری دن تک۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو دلیل کے اعتبار سے راجح قرار دیا ہے کہ ایام تشریق کے آخر‘ یعنی ۱۳ ذوالحجہ کی شام تک قربانی جائز ہے۔ احادیث کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ ] حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ بجیلہ قبیلے کی شاخ عَلَقَہ سے ہونے کی وجہ سے بَجَلی عَلَقِی کہلائے ۔ شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ بسااوقات اپنے دادا کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔ پہلے کوفہ میں تھے‘ پھر بصرہ میں تشریف لے گئے۔ ۶۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأضاحي، باب من ذبح قبل الصلاة أعاد، حديث:5562، ومسلم، الأضاحي، باب وقتها، حديث:1960.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت نماز عید کے بعد ہے۔ اگر کسی نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کر دیا تو اس کی قربانی نہیں ہوگی‘ اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔ 2. نماز عید سے مراد عید کی وہ باجماعت نماز ہے جو امام کی اقتدا میں ادا کی جائے اور اس کے بعد خطبہ مسنونہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ جب باجماعت نماز عید ادا کر لی جائے اور خطبہ مسنونہ بھی ہو چکے‘ تب قربانی کی جائے‘ پہلے نہیں۔ اس حکم میں دیہاتی اور شہری سبھی برابر کے شامل ہیں۔ مختلف اقوال میں سے یہی قول راجح ہے۔ 3.قربانی کا آخری وقت کیا ہے اس میں اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کے ہاں ذوالحجہ کی ۱۲ تاریخ کی شام تک اس کا آخری وقت ہے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کی ۱۳ تاریخ کی شام تک۔ داود ظاہری اور تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک منیٰ میں تو بارہ ذوالحجہ کی شام تک اور اس کے سوا صرف قربانی کے دن کی شام تک۔ اور ایک جماعت کی رائے یہ بھی ہے کہ ذوالحجہ کے آخری دن تک۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے تفسیر ابن کثیر میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کو دلیل کے اعتبار سے راجح قرار دیا ہے کہ ایام تشریق کے آخر‘ یعنی ۱۳ ذوالحجہ کی شام تک قربانی جائز ہے۔ احادیث کی رو سے یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ ] حضرت جندب بن عبداللہ بن سفیان رضی اللہ عنہ بجیلہ قبیلے کی شاخ عَلَقَہ سے ہونے کی وجہ سے بَجَلی عَلَقِی کہلائے ۔ شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ بسااوقات اپنے دادا کی طرف منسوب کیے جاتے تھے۔ پہلے کوفہ میں تھے‘ پھر بصرہ میں تشریف لے گئے۔ ۶۰ ہجری کے بعد وفات پائی۔