بلوغ المرام - حدیث 1160

كِتَاب الْأَطْعِمَةِ بَاب الْأَضَاحِيِّ صحيح عَنْ أَنَسِ بنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، أَقْرَنَيْنِ، وَيُسَمِّي، وَيُكَبِّرُ، وَيَضَعُ رِجْلَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا. وَفِي لَفْظٍ: ذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَفِي لَفْظِ: سَمِينَيْنِ. وَلِأَبِي عَوَانَةَ فِي ((صَحِيحِهِ)): ثَمِينَيْنِ. بِالْمُثَلَّثَةِ بَدَلَ السِّينِ. وَفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ، وَيَقُولُ: ((بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ)). وَلَهُ: مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا; أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، يَطَأُ فِي سَوَادٍ، وَيَبْرُكُ فِي سَوَادٍ، وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ; لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ: ((اشْحَذِي الْمُدْيَةَ))، ثُمَّ أَخَذَهَا، فَأَضْجَعَهُ، ثُمَّ ذَبَحَهُ، وَقَالَ: ((بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ، وَمِنْ أُمّةِ مُحَمَّدٍ)). ثم ضحي به.

ترجمہ - حدیث 1160

کتاب: کھانے سے متعلق احکام و مسائل باب: قربانی سے متعلق احکام و مسائل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چتکبرے اور سینگوں والے دو مینڈھے قربانی کرتے تھے اور بسم اللہ پڑھتے اور تکبیر کہتے اور ان کے پہلوؤں پر اپنا پاؤں مبارک رکھتے تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان دونوں کو اپنے دست مبارک سے ذبح کیا۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ وہ خوب موٹے تازے تھے۔ اور ابوعوانہ کی صحیح میں سَمِینَیْنِ کی بجائے ثَمِینَیْنِ ہے‘ یعنی وہ قیمتی تھے۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ بِسْمِ اللّٰہِ‘ وَاللّٰہُ أَکْبَر کہتے ۔ اور مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ آپ نے سینگوں والے مینڈھے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو (اس کی ٹانگیں سیاہ ہوں)‘ سیاہی میں بیٹھتا ہو (اس کا پیٹ اور سینہ سیاہ ہو) اور سیاہی میں دیکھتا ہو (اس کی آنکھیں بھی سیاہ ہوں) تاکہ آپ اس کی قربانی کریں۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: (’’عائشہ!) چھری تیز کرو۔‘‘ پھر آپ نے چھری کو پکڑا اور مینڈھے کو لٹایا۔ پھر اسے ذبح کرتے ہوئے فرمایا: [بِسْمِ اللّٰہِ‘ اَللّٰھُمَّ! تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ‘ وَمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ] ’’اللہ کے نام سے (میں ذبح کرتا ہوں۔) اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )‘ آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما۔‘‘ پھر اسے قربان کر دیا۔
تشریح : 1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موٹے تازے جانور کی قربانی محبوب تھی۔ 2.قربانی سے پہلے چھری خوب تیز کر لینی چاہیے۔ 3. جانور کو پہلو کے بل لٹا کر ذبح کرنا چاہیے۔ 4. ذبح سے پہلے مسنون دعا اور تکبیر پڑھنی چاہیے۔ مذکورہ حدیث میں مذکور دعا کے علاوہ بھی ایک دعا ذبح کرتے وقت پڑھنا ثابت ہے۔ اور وہ دعا یہ ہے : [إِنِّي وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَاْلأَرضَ عَلٰی مِلَّۃِ إِبْرَاھِیمَ حَنِیفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ‘ إِنَّ صَلاَتِي وَ نُسُکِي وَ مَحْیَايَ وَ مَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ‘ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ‘ اَللّٰھُمَّ! مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّ أُمَّتِہِ بِسْمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرُ] (مسند أحمد:۳ /۳۷۵‘ وسنن أبي داود‘ الضحایا‘ باب ما یستحب من الضحایا‘ حدیث: ۲۷۹۵) دعا میں مذکور الفاظ : [عَنْ مُحَمَّدٍ وَ أُمَّتِہِ] کے بجائے اپنا اور اہل و عیال کا نام لے یا جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے اس کا نام لے۔ 5. اہل خانہ کی طرف سے ایک جانور قربانی کرنے سے سنت ادا ہو جاتی ہے۔ 6. قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنی چاہیے گو اس میں نیابت بھی جائزہے۔ 7.میت کی طرف سے قربانی کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی عمل سے استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپ کی اقتدا جائز نہیں۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۴ /۳۵۴) علاوہ ازیں خیرالقرون (صحابہ و تابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ صرف ایک نقطۂ نظر سے اس کا جواز ہو سکتا ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے‘ یعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابوداود ‘ اردو‘ طبع دارالسلام‘ حدیث : ۲۷۹۰ کے فوائد و مسائل)
تخریج : أخرجه البخاري، الحج، باب من نحر هدية بيده، حديث:1712، حديث:5553، 5558 وغيره، وحديث عائشة: أخرجه مسلم، الأضاحي، حديث:1967. 1. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موٹے تازے جانور کی قربانی محبوب تھی۔ 2.قربانی سے پہلے چھری خوب تیز کر لینی چاہیے۔ 3. جانور کو پہلو کے بل لٹا کر ذبح کرنا چاہیے۔ 4. ذبح سے پہلے مسنون دعا اور تکبیر پڑھنی چاہیے۔ مذکورہ حدیث میں مذکور دعا کے علاوہ بھی ایک دعا ذبح کرتے وقت پڑھنا ثابت ہے۔ اور وہ دعا یہ ہے : [إِنِّي وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَاْلأَرضَ عَلٰی مِلَّۃِ إِبْرَاھِیمَ حَنِیفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ‘ إِنَّ صَلاَتِي وَ نُسُکِي وَ مَحْیَايَ وَ مَمَاتِي لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ‘ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَ أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِینَ‘ اَللّٰھُمَّ! مِنْکَ وَلَکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَّ أُمَّتِہِ بِسْمِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ أَکْبَرُ] (مسند أحمد:۳ /۳۷۵‘ وسنن أبي داود‘ الضحایا‘ باب ما یستحب من الضحایا‘ حدیث: ۲۷۹۵) دعا میں مذکور الفاظ : [عَنْ مُحَمَّدٍ وَ أُمَّتِہِ] کے بجائے اپنا اور اہل و عیال کا نام لے یا جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے اس کا نام لے۔ 5. اہل خانہ کی طرف سے ایک جانور قربانی کرنے سے سنت ادا ہو جاتی ہے۔ 6. قربانی اپنے ہاتھ سے ذبح کرنی چاہیے گو اس میں نیابت بھی جائزہے۔ 7.میت کی طرف سے قربانی کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی عمل سے استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ بعض علماء کے نزدیک وہ آپ کا خاصہ ہے جس میں امت کے لیے آپ کی اقتدا جائز نہیں۔ دیکھیے: (إرواء الغلیل: ۴ /۳۵۴) علاوہ ازیں خیرالقرون (صحابہ و تابعین کے بہترین ادوار) میں بھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ صرف ایک نقطۂ نظر سے اس کا جواز ہو سکتا ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے‘ یعنی ایصال ثواب کے طور پر اس کا انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابوداود ‘ اردو‘ طبع دارالسلام‘ حدیث : ۲۷۹۰ کے فوائد و مسائل)