بلوغ المرام - حدیث 114

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ التَّيَمُّمِ ضعيف وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ - عز وجل: {وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ} (1) قَالَ: ((إِذَا كَانَتْ بِالرَّجُلِ الْجِرَاحَةُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْقُرُوحُ، فَيُجْنِبُ، فَيَخَافُ أَنْ يَمُوتَ إِنْ اِغْتَسَلَ: تَيَمَّمَ)). رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ مَوْقُوفًا، وَرَفَعَهُ الْبَزَّارُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ، وَالْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 114

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: تیمم کے احکام ومسائل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰی أَوْ عَلٰی سَفَرٍ﴾ کے متعلق مروی ہے کہ جب کسی شخص کو اللہ کی راہ میں زخم اور پھوڑوں کا سامنا کرنا پڑے اور اسی حالت میں اسے جنابت لاحق ہو جائے اور غسل کرنے کی صورت میں مر جانے کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کرلے۔ (اس روایت کو دارقطنی نے موقوف اور بزار نے مرفوع بیان کیا ہے اور ابن خزیمہ اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. ’’اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو اور تمھیں پانی دستیاب نہ ہو سکے تو تیمم کرو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز پڑھنا چاہو اور وضو یا غسل میں کوئی امر مانع ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔ 2.اس آیت میں بیماری اور مرض سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد معمولی پھوڑا پھنسی اور خراش تو بہرحال نہیں ہو سکتے‘ لہٰذا اس سے مراد وہ بیماری ہے جسے عرف عام میں بیماری و مرض سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ بیماری کس درجے کی ہو تو تیمم جائز ہے‘ اس بارے میں ائمہ کے مابین اختلاف ہے۔ 3.امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایسی بیماری میں تیمم جائز ہے جس سے انسان کی موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو یا کسی عضو اور حصہ ٔجسم کے ضائع یا عیب دار ہونے کا خوف ہو۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر بیماری کے طول پکڑ جانے کا ڈر ہو تب بھی تیمم جائز ہے۔ 4.اس آیت میں سفر میں ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ اس سفر سے وہ سفر مراد نہیں ہے جس میں نماز قصر اور روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے بلکہ اس سفر سے مطلق سفر مراد ہے اور مقصود اس سے صرف سفر میں پانی کا نہ ہونا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔ 5.ہمارے محقق کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ دیگر محدثین کی بھی اس حدیث کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ اس معاملے میں دارقطنی کی رائے زیادہ صحیح ہے جیسا کہ بزار کہتے ہیں کہ اس روایت کو جریر کے علاوہ کسی ثقہ راوی نے عطاء سے بیان نہیں کیا۔ اور ابن معین نے کہا ہے کہ جریر کا عطاء سے سماع اس موقع پر ہے جب ان کے حافظے میں اختلاط پیدا ہو چکا تھا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا درست نہ ہوا۔
تخریج : أخرجه الدارقطني:1 / 177، وابن خزيمة:1 / 138، حديث:272، وابن الجارود:129* جرير سمع من عطاء بن السائب بعد اختلاطه. 1. ’’اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو اور تمھیں پانی دستیاب نہ ہو سکے تو تیمم کرو۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نماز پڑھنا چاہو اور وضو یا غسل میں کوئی امر مانع ہو تو تیمم کر کے نماز پڑھ لو۔ 2.اس آیت میں بیماری اور مرض سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد معمولی پھوڑا پھنسی اور خراش تو بہرحال نہیں ہو سکتے‘ لہٰذا اس سے مراد وہ بیماری ہے جسے عرف عام میں بیماری و مرض سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ بیماری کس درجے کی ہو تو تیمم جائز ہے‘ اس بارے میں ائمہ کے مابین اختلاف ہے۔ 3.امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایسی بیماری میں تیمم جائز ہے جس سے انسان کی موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو یا کسی عضو اور حصہ ٔجسم کے ضائع یا عیب دار ہونے کا خوف ہو۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اگر بیماری کے طول پکڑ جانے کا ڈر ہو تب بھی تیمم جائز ہے۔ 4.اس آیت میں سفر میں ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ اس سفر سے وہ سفر مراد نہیں ہے جس میں نماز قصر اور روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے بلکہ اس سفر سے مطلق سفر مراد ہے اور مقصود اس سے صرف سفر میں پانی کا نہ ہونا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا یہی مسلک ہے۔ 5.ہمارے محقق کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ دیگر محدثین کی بھی اس حدیث کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ اس معاملے میں دارقطنی کی رائے زیادہ صحیح ہے جیسا کہ بزار کہتے ہیں کہ اس روایت کو جریر کے علاوہ کسی ثقہ راوی نے عطاء سے بیان نہیں کیا۔ اور ابن معین نے کہا ہے کہ جریر کا عطاء سے سماع اس موقع پر ہے جب ان کے حافظے میں اختلاط پیدا ہو چکا تھا۔ اس اعتبار سے اس کا مرفوع ہونا درست نہ ہوا۔