بلوغ المرام - حدیث 1135

كِتَاب الْأَطْعِمَةِ بَاب الْأَطْعِمَةِ صحيح عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، فَأَكلُهُ حَرَامٌ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ. وَأَخْرَجَهُ: مِنْ حَدِيثِ اِبْنِ عَبَّاسٍ بِلَفْظٍ: نَهَى. وَزَادَ: ((وَكُلُّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ)).

ترجمہ - حدیث 1135

کتاب: کھانے سے متعلق احکام و مسائل باب: کھانے سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’درندوں میں سے ہر کچلی والے جانور کو کھانا حرام ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)اور مسلم نے یہی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے ان الفاظ سے بیان کی ہے کہ آپ نے منع فرمایا ... اور اس میں یہ اضافہ ہے: ’’پرندوں میں ہر اس پرندے کو کھانا حرام ہے جو پنجوں (سے شکار کرنے) والا ہو۔‘‘
تشریح : اس حدیث میں جانوروں کی حرمت کی ایک جامع علامت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ہر چیرنے پھاڑنے والا درندہ‘ دوسرے الفاظ میں گوشت خور جانور حرام ہے اور ہر وہ پرندہ جو پنجے سے شکار کر کے کھاتا ہو‘ حرام ہے۔ اس اصول کو امام شافعی‘ امام ابوحنیفہ‘ امام احمد اور داود ظاہری رحمہم اللہ نے تسلیم کیا ہے مگر اس کے باوجود درندوں کی حقیقت میں اختلاف ہے‘ لہٰذا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک گوشت خور جانور جیسا بھی ہو وہ سَبُع ہے۔ اس اعتبار سے بلی ‘ ہاتھی وغیرہ بھی سباع میں شامل ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک درندوں میں سے وہ حرام ہے جو انسان پر حملہ آور ہو‘ جیسے شیر‘ بھیڑیا‘ چیتا وغیرہ۔ بجو اور لومڑی نہیں‘ اس لیے کہ یہ آدمی پر حملہ نہیں کرتے۔ اسی طرح پنجے سے شکار اور پنجے سے پکڑ کر کھانے والا پرندہ بھی حرام ہے‘ جیسے عقاب‘ باز‘ شکرا‘ شاہین وغیرہ۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے انھیں مکروہ کہا ہے حرام نہیں کہا‘ البتہ چیل اور گدھ کو خباثت کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم، الصيد والذبائح، باب تحريم أكل كل ذي ناب من السباع...، حديث:1933، وحديث ابن عباس: أخرجه مسلم، الصيد والذبائح، حديث:1934. اس حدیث میں جانوروں کی حرمت کی ایک جامع علامت بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ہر چیرنے پھاڑنے والا درندہ‘ دوسرے الفاظ میں گوشت خور جانور حرام ہے اور ہر وہ پرندہ جو پنجے سے شکار کر کے کھاتا ہو‘ حرام ہے۔ اس اصول کو امام شافعی‘ امام ابوحنیفہ‘ امام احمد اور داود ظاہری رحمہم اللہ نے تسلیم کیا ہے مگر اس کے باوجود درندوں کی حقیقت میں اختلاف ہے‘ لہٰذا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک گوشت خور جانور جیسا بھی ہو وہ سَبُع ہے۔ اس اعتبار سے بلی ‘ ہاتھی وغیرہ بھی سباع میں شامل ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک درندوں میں سے وہ حرام ہے جو انسان پر حملہ آور ہو‘ جیسے شیر‘ بھیڑیا‘ چیتا وغیرہ۔ بجو اور لومڑی نہیں‘ اس لیے کہ یہ آدمی پر حملہ نہیں کرتے۔ اسی طرح پنجے سے شکار اور پنجے سے پکڑ کر کھانے والا پرندہ بھی حرام ہے‘ جیسے عقاب‘ باز‘ شکرا‘ شاہین وغیرہ۔ جمہور علماء کا قول یہی ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ نے انھیں مکروہ کہا ہے حرام نہیں کہا‘ البتہ چیل اور گدھ کو خباثت کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے۔