بلوغ المرام - حدیث 1127

كِتَابُ الْجِهَادِ بَاب الْجِزْيَةَ وَالْهُدْنَةَ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((لَا تَبْدَؤُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلَامِ، وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ، فَاضْطَرُّوهُ إِلَى أَضْيَقِهِ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 1127

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل باب: جزیہ اور صلح کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہود و نصاریٰ کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو اور جب تم راستے میں ان میں سے کسی سے ملو تو اسے راستے کی تنگ جانب جانے پر مجبور کر دو۔‘‘ ( اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث کی رو سے مسلمان کا یہود و نصاریٰ اور مجوس وغیرہ کو پہلے سلام کرنا منع اور حرام ہے۔ جمہور سلف کی رائے یہی ہے مگر کچھ لوگ جن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں‘ کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو پہلے سلام کرنا جائز ہے، لیکن یہ موقف درست نہیں۔ 2.یہود و نصاریٰ سے راستے میں ملاقات ہو جائے تو ان کے لیے راستہ بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 3. اس سے انھیں یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ وہ چھوٹے لوگ ہیں اور چھوٹے ہی بن کر رہیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ اسلام انسان‘ انسان کے مابین امتیاز پیدا کرتا ہے۔ یہ تو اصول کی بات ہے کہ جو لوگ دین فطرت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں ان کا مقام و مرتبہ بہرحال وہ نہیں ہو سکتا جو ماننے والوں کا ہے‘ نیز دراصل حقیقی انسان وہی ہے جو اپنے خالق و مالک کا مطیع و فرمانبردار اور اس کے بھیجے ہوئے دین‘ یعنی اسلام کو ماننے والا ہو ورنہ وہ شکل وصورت میں تو آدم کی اولاد ہی سے ہے مگر باطنی طور پر چوپایوں سے بھی بدتر ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم، السلام، باب النهي عن ابتداء أهل الكتاب بالسلام...، حديث:2167. 1. اس حدیث کی رو سے مسلمان کا یہود و نصاریٰ اور مجوس وغیرہ کو پہلے سلام کرنا منع اور حرام ہے۔ جمہور سلف کی رائے یہی ہے مگر کچھ لوگ جن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں‘ کہتے ہیں کہ اہل کتاب کو پہلے سلام کرنا جائز ہے، لیکن یہ موقف درست نہیں۔ 2.یہود و نصاریٰ سے راستے میں ملاقات ہو جائے تو ان کے لیے راستہ بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 3. اس سے انھیں یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ وہ چھوٹے لوگ ہیں اور چھوٹے ہی بن کر رہیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں نکالنا چاہیے کہ اسلام انسان‘ انسان کے مابین امتیاز پیدا کرتا ہے۔ یہ تو اصول کی بات ہے کہ جو لوگ دین فطرت کو قبول کرنے سے انکاری ہیں ان کا مقام و مرتبہ بہرحال وہ نہیں ہو سکتا جو ماننے والوں کا ہے‘ نیز دراصل حقیقی انسان وہی ہے جو اپنے خالق و مالک کا مطیع و فرمانبردار اور اس کے بھیجے ہوئے دین‘ یعنی اسلام کو ماننے والا ہو ورنہ وہ شکل وصورت میں تو آدم کی اولاد ہی سے ہے مگر باطنی طور پر چوپایوں سے بھی بدتر ہے۔