كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْجِهَادِ صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا، فَأَقَمْتُمْ فِيهَا، فَسَهْمُكُمْ فِيهَا، وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنْ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ هِيَ لَكُمْ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
باب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جس بستی میں بھی آؤ اور اس میں قیام کرو ‘ اس میں تمھارا حصہ ہے۔ اور جو بستی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمان ہو تو اس کا خمس‘ اللہ اور اس کے رسول کا ہے‘ پھر وہ (بستی کا بقیہ) تمھارے لیے ہے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اموال فے میں سے خمس نہیں نکالا جاتا‘ جو لوگ اس کے قائل ہیں یہ حدیث ان کے نظریے کی تردید کرتی ہے۔ 2.ابن منذر کا قول ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے کوئی مال فے میں خمس کا قائل ہوا ہو۔ 3. اس حدیث میں پہلے جس بستی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ بستی ہے جہاں لڑائی نہ ہوئی ہو۔ اس میں مجاہدین کا حصہ دوسرے عام مسلمانوں کے مساوی ہے۔ اور بعد میں جس بستی کا ذکر ہواہے اس سے مراد وہ بستی ہے جہاں لڑائی ہوئی ہو۔ اس میں پانچواں حصہ نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1756.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اموال فے میں سے خمس نہیں نکالا جاتا‘ جو لوگ اس کے قائل ہیں یہ حدیث ان کے نظریے کی تردید کرتی ہے۔ 2.ابن منذر کا قول ہے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے کوئی مال فے میں خمس کا قائل ہوا ہو۔ 3. اس حدیث میں پہلے جس بستی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ بستی ہے جہاں لڑائی نہ ہوئی ہو۔ اس میں مجاہدین کا حصہ دوسرے عام مسلمانوں کے مساوی ہے۔ اور بعد میں جس بستی کا ذکر ہواہے اس سے مراد وہ بستی ہے جہاں لڑائی ہوئی ہو۔ اس میں پانچواں حصہ نکال کر باقی مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔