بلوغ المرام - حدیث 112

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ التَّيَمُّمِ حسن وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((الصَّعِيدُ وُضُوءُ الْمُسْلِمِ، وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ عَشْرَ سِنِينَ، فَإِذَا وَجَدَ الْمَاءَ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ، وَلْيُمِسَّهُ بَشَرَتَهُ)). رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْقَطَّانِ، [وَ] لَكِنْ صَوَّبَ الدَّارَقُطْنِيُّ إِرْسَالَهُ. وَلِلتِّرْمِذِيِّ: عَنْ أَبِي ذَرٍّ نَحْوُهُ، وَصَحَّحَهُ. وَالحَاكِمُ أَيضًا.

ترجمہ - حدیث 112

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: تیمم کے احکام ومسائل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مٹی مومن مسلمان کا وضو ہے‘ خواہ دس برس تک اسے پانی نہ ملے۔ مگر جب پانی دستیاب ہو جائے تو پھر اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اپنے جسم پر پانی پہنچانا چاہیے۔‘‘ (اسے بزار نے روایت کیا ہے اور ابن قطان نے صحیح قرار دیا ہے‘ لیکن دارقطنی نے اس کے مرسل ہونے کو درست کہا ہے۔ اور ترمذی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (ترمذی) اور حاکم نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمم کے لیے وقت و مدت کا تعین نہیں اور جب پانی کی دستیابی کی صورت میں عذر باقی نہ رہے تو پھر پانی کا استعمال واجب ہے۔2. اس حدیث میں تیمم کو وضو قرار دیا گیا ہے تو گویا تیمم وضو کا قائم مقام اور بدل ہے۔ جب یہ پانی کا بدل ہے تو پھر دونوں کے احکام بھی ایک جیسے ہوں گے‘ یعنی ایک وضو سے جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہے تیمم سے بھی اتنی پڑھی جا سکتی ہیں۔ 3. بعض لوگ اس حدیث کی رو سے تیمم سے رفع حدث کے قائل نہیں ہیں۔ان کے نزدیک صرف نماز مباح ہوتی ہے‘ جب نماز سے فارغ ہوگا تو پھر پہلے کی طرح بے وضو یا جنبی شمار ہوگا ۔ پہلا مسلک احناف کا ہے‘ ان کے نزدیک ایک تیمم سے جب تک تیمم قائم رہے کئی فرائض ادا ہو سکتے ہیں۔ سعید بن مسیب‘ حسن بصری‘ زہری اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی‘ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ تیمم سے طہارت کاملہ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس سے جو طہارت حاصل ہوتی ہے اس کی حیثیت معذور کی اس طہارت کی طرح ہے جو محض ضرورت کے لیے ایک محدود مدت تک حاصل ہوتی ہے اور اس سے صرف ایک ہی فرض (جس کے لیے تیمم کیا گیا ہو) ادا ہو سکتا ہے۔ 4.ترمذی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث‘ جس کا حوالہ دیا گیا ہے‘ اس طرح ہے: ’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو جب مدینہ منورہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا‘ آپ نے ان کو اونٹوں میں رہنے کا حکم فرمایا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اونٹوں میں رہنا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ابوذر تو تباہ ہوگیا۔ آپ نے دریافت فرمایا : ’’کیا ہوا؟‘‘ انھوں نے عرض کیا کہ جنابت لاحق ہو جاتی ہے اور میرے پاس پانی نہیں ہوتا (کیا کروں؟) ارشاد ہوا جسے پانی نہ ملے اس کے لیے مٹی پاک کرنے کا ذریعہ ہے اگرچہ دس سال تک یہی حال رہے۔‘‘ ترمذی کی روایت میں اختصار ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب الجنب یتیمم‘ حدیث:۳۳۲‘ ۳۳۳) راویٔ حدیث: [حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ] ’’را‘‘ پر تشدیدہے۔ نام ان کا جندب بن جنادہ تھا۔ جنادہ میں ’’جیم‘‘ پر ضمہ ہے۔ ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے۔ مکہ میں ابتدائے اسلام ہی میں دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوئے۔ مقام ربذہ میں رہائش رکھی‘ اور وہیں پر ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔ بہت متقی‘ پرہیزگار اور اللہ پر توکل کرنے والے تھے۔
تخریج : أخرجه البزار، في كش الأستار: 1 / 157، حديث: 310 وهو حديث حسن بالشواهد، والترمذي، الطهارة، حديث:124، من أبي ذر رضي الله عنه، وأبوداود، الطهارة، حديث: 332 وسنده حسن. 1. یہ حدیث یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمم کے لیے وقت و مدت کا تعین نہیں اور جب پانی کی دستیابی کی صورت میں عذر باقی نہ رہے تو پھر پانی کا استعمال واجب ہے۔2. اس حدیث میں تیمم کو وضو قرار دیا گیا ہے تو گویا تیمم وضو کا قائم مقام اور بدل ہے۔ جب یہ پانی کا بدل ہے تو پھر دونوں کے احکام بھی ایک جیسے ہوں گے‘ یعنی ایک وضو سے جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہے تیمم سے بھی اتنی پڑھی جا سکتی ہیں۔ 3. بعض لوگ اس حدیث کی رو سے تیمم سے رفع حدث کے قائل نہیں ہیں۔ان کے نزدیک صرف نماز مباح ہوتی ہے‘ جب نماز سے فارغ ہوگا تو پھر پہلے کی طرح بے وضو یا جنبی شمار ہوگا ۔ پہلا مسلک احناف کا ہے‘ ان کے نزدیک ایک تیمم سے جب تک تیمم قائم رہے کئی فرائض ادا ہو سکتے ہیں۔ سعید بن مسیب‘ حسن بصری‘ زہری اور سفیان ثوری رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی‘ امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ تیمم سے طہارت کاملہ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس سے جو طہارت حاصل ہوتی ہے اس کی حیثیت معذور کی اس طہارت کی طرح ہے جو محض ضرورت کے لیے ایک محدود مدت تک حاصل ہوتی ہے اور اس سے صرف ایک ہی فرض (جس کے لیے تیمم کیا گیا ہو) ادا ہو سکتا ہے۔ 4.ترمذی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث‘ جس کا حوالہ دیا گیا ہے‘ اس طرح ہے: ’’حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو جب مدینہ منورہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا‘ آپ نے ان کو اونٹوں میں رہنے کا حکم فرمایا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اونٹوں میں رہنا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ابوذر تو تباہ ہوگیا۔ آپ نے دریافت فرمایا : ’’کیا ہوا؟‘‘ انھوں نے عرض کیا کہ جنابت لاحق ہو جاتی ہے اور میرے پاس پانی نہیں ہوتا (کیا کروں؟) ارشاد ہوا جسے پانی نہ ملے اس کے لیے مٹی پاک کرنے کا ذریعہ ہے اگرچہ دس سال تک یہی حال رہے۔‘‘ ترمذی کی روایت میں اختصار ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب الجنب یتیمم‘ حدیث:۳۳۲‘ ۳۳۳) راویٔ حدیث: [حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ] ’’را‘‘ پر تشدیدہے۔ نام ان کا جندب بن جنادہ تھا۔ جنادہ میں ’’جیم‘‘ پر ضمہ ہے۔ ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے جو زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے۔ مکہ میں ابتدائے اسلام ہی میں دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پھر اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے۔ مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش ہوئے۔ مقام ربذہ میں رہائش رکھی‘ اور وہیں پر ۳۲ ہجری میں وفات پائی۔ بہت متقی‘ پرہیزگار اور اللہ پر توکل کرنے والے تھے۔