كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْجِهَادِ صحيح وَعَنْهُ رضي الله عنه قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ، مِمَّا لَمْ يُوجِفْ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - خَاصَّةً، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَةٍ، وَمَا بَقِيَ يَجْعَلُهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ، عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
باب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اموال‘ ان اموال میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بغیر جنگ کے عطا فرمائے ہیں۔ جن پر مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ یہ اموال بالخصوص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔ آپ ان اموال میں سے اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ نکالتے تھے اور جو باقی بچ رہتا اسے جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے گھوڑوں اور ہتھیاروں کی فراہمی میں صرف کرتے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح :
بنو نضیر‘ مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں کا بہت بڑا قبیلہ تھا۔ ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا۔ انھوں نے بقول بعض‘ غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد اور بقول ابن اسحٰق ‘احد اور بئر معونہ کے واقعے کے بعد عہد شکنی کا ارتکاب کیا۔ تنبیہ اور یاددہانی کے باوجود وہ باز نہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کر دی اور ان کا محاصرہ کر لیا۔ بالآخر وہ محاصرے کی تاب نہ لا کر اپنے گھر بار اور مال چھوڑ کر جلا وطن ہوگئے اور بغیر کسی قسم کی لڑائی کے ان کے اموال آپ کے ہاتھ آگئے۔ یہ اموال فے قرار پائے‘ اس لیے کہ لڑائی تو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی‘ اس لیے بحیثیت غازی تو کسی کا کوئی حصہ بنتا ہی نہیں تھا‘ تاہم آپ نے اس کا اکثر حصہ مہاجرین میں تقسیم کیا اور دو انصاری صحابہ کو بھی حسب ضرورت عطا فرمایا۔ باقی مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرتے تھے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الجهاد، باب المجن ومن يترس بترس صاحبه، حديث:2904، ومسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1757.
بنو نضیر‘ مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں کا بہت بڑا قبیلہ تھا۔ ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا۔ انھوں نے بقول بعض‘ غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد اور بقول ابن اسحٰق ‘احد اور بئر معونہ کے واقعے کے بعد عہد شکنی کا ارتکاب کیا۔ تنبیہ اور یاددہانی کے باوجود وہ باز نہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کر دی اور ان کا محاصرہ کر لیا۔ بالآخر وہ محاصرے کی تاب نہ لا کر اپنے گھر بار اور مال چھوڑ کر جلا وطن ہوگئے اور بغیر کسی قسم کی لڑائی کے ان کے اموال آپ کے ہاتھ آگئے۔ یہ اموال فے قرار پائے‘ اس لیے کہ لڑائی تو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی‘ اس لیے بحیثیت غازی تو کسی کا کوئی حصہ بنتا ہی نہیں تھا‘ تاہم آپ نے اس کا اکثر حصہ مہاجرین میں تقسیم کیا اور دو انصاری صحابہ کو بھی حسب ضرورت عطا فرمایا۔ باقی مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرتے تھے۔