كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْجِهَادِ صحيح وَعَنْ مَعْنِ بْنِ يَزِيدَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: ((لَا نَفْلَ إِلَّا بَعْدَ الْخُمُسِ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَصَحَّحَهُ الطَّحَاوِيُّ.
کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
باب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
حضرت معن بن یزید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’نفل (زائد حصہ) خمس کے بعد ہی ہوتا ہے۔‘‘ (اسے احمد اور ابوداود نے روایت کیا ہے اور طحاوی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. یہاں دو مسئلے قابل غور ہیں: پہلا یہ کہ یہ اضافی اور زائد حصہ اصل مال غنیمت میں سے دیا جائے گا یا خمس میں سے؟ اس حدیث میں ان دونوں باتوں میں سے کسی کی صراحت نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نفل (زائد حصہ) دینے سے پہلے غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جبکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نفل خواہ اصل غنیمت سے دیا جائے یا خمس سے‘ دونوں طرح جائز ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا نفل، خمس سے پہلے دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس حدیث کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سابقہ حدیث (۱۱۰۹) کے ایک دوسرے طریق سے ثابت الفاظ اس کے جواز پر دلالت کرتے ہیں۔ 2. اس روایت میں یہ صراحت ہے کہ نجد کی جانب بھیجے جانے والے مجاہدین کو خمس نکالنے سے پہلے نفل دیا گیا تھا۔ ملاحظہ ہو: (سنن أبي داود مع شرح عون المعبود:۳ /۲۲) لہٰذا اس حدیث میں موجود نہی کا ظاہری مفہوم مراد نہیں بلکہ نہی تنزیہی ہے۔راوئ حدیث: [حضرت معن بن یزید رضی اللہ عنہما ] معن بن یزید بن اخنس سلمی۔ خود بھی صحابی اور باپ بھی صحابی ہیں۔ فتح دمشق میں یہ بھی حاضر تھے۔ کوفہ میں رہائش اختیار کی‘ پھر مصر میں آئے‘ بعد میں پھر دمشق میں منتقل ہو گئے۔ مرج راہط کی جنگ میں ضحاک بن قیس کے ساتھ ۶۴ ہجری میں شامل ہوئے اور شہید ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی لڑائیوں میں شریک رہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في النفل من الذهب والفضة ومن أول مغنم، حديث:2753، وأحمد:3 /470.
1. یہاں دو مسئلے قابل غور ہیں: پہلا یہ کہ یہ اضافی اور زائد حصہ اصل مال غنیمت میں سے دیا جائے گا یا خمس میں سے؟ اس حدیث میں ان دونوں باتوں میں سے کسی کی صراحت نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ نفل (زائد حصہ) دینے سے پہلے غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جبکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نفل خواہ اصل غنیمت سے دیا جائے یا خمس سے‘ دونوں طرح جائز ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا نفل، خمس سے پہلے دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس حدیث کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سابقہ حدیث (۱۱۰۹) کے ایک دوسرے طریق سے ثابت الفاظ اس کے جواز پر دلالت کرتے ہیں۔ 2. اس روایت میں یہ صراحت ہے کہ نجد کی جانب بھیجے جانے والے مجاہدین کو خمس نکالنے سے پہلے نفل دیا گیا تھا۔ ملاحظہ ہو: (سنن أبي داود مع شرح عون المعبود:۳ /۲۲) لہٰذا اس حدیث میں موجود نہی کا ظاہری مفہوم مراد نہیں بلکہ نہی تنزیہی ہے۔راوئ حدیث: [حضرت معن بن یزید رضی اللہ عنہما ] معن بن یزید بن اخنس سلمی۔ خود بھی صحابی اور باپ بھی صحابی ہیں۔ فتح دمشق میں یہ بھی حاضر تھے۔ کوفہ میں رہائش اختیار کی‘ پھر مصر میں آئے‘ بعد میں پھر دمشق میں منتقل ہو گئے۔ مرج راہط کی جنگ میں ضحاک بن قیس کے ساتھ ۶۴ ہجری میں شامل ہوئے اور شہید ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی لڑائیوں میں شریک رہے۔