كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْجِهَادِ صحيح وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ - رضي الله عنه - فِي - قِصَّةِ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ - قَالَ: فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: ((أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟ هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟)) قَالَا: لَا. قَالَ: فَنَظَرَ فِيهِمَا، فَقَالَ: ((كِلَاكُمَا قَتَلَهُ، سَلْبُهُ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِوِ بْنِ الْجَمُوحِ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
باب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ابوجہل کے قتل کے واقعے میں مروی ہے کہ پھر وہ دونوں اپنی اپنی تلواریں لے کر ابوجہل کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھے حتیٰ کہ اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو (ابوجہل کے قتل کی) خبر دی۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’تم دونوں میں سے کس نے اسے قتل کیا؟ کیا تم نے اپنی اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟‘‘ دونوں بولے: نہیں۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ نے ان دونوں کی تلواروں کو دیکھا اور فرمایا: ’’تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کے ساز و سامان کا معاذ بن عمرو بن جموح کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح :
راوئ حدیث: [حضرت معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ ] یہ انصار کے قبیلۂ خزرج کے فرد تھے۔ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ انھوں نے ابوجہل کا پاؤں کاٹ کر اسے پچھاڑ دیا تھا۔ عکرمہ بن ابی جہل نے ان کو زخم لگایا کہ ان کا ہاتھ کٹ کر لٹک گیا تو انھوں نے پاؤں تلے دبا کر کھینچ کر اسے جدا کر دیا اور پھینک دیا اور باقی سارا وقت اکیلے ہاتھ سے لڑتے اور داد شجاعت دیتے رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے موقف سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صاحب‘ ابن عفراء کے علاوہ اور کوئی تھے کیونکہ ابن عفراء کا نسب اس طرح ہے۔ معاذ بن حارث بن رفاعہ نجاری۔
تخریج :
أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب من لم يخمس الأسلاب، حديث:3141، ومسلم، الجهاد والسير، باب استحقاق القاتل سلب القتيل، حديث:1752.
راوئ حدیث: [حضرت معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ ] یہ انصار کے قبیلۂ خزرج کے فرد تھے۔ بیعت عقبہ اور غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ انھوں نے ابوجہل کا پاؤں کاٹ کر اسے پچھاڑ دیا تھا۔ عکرمہ بن ابی جہل نے ان کو زخم لگایا کہ ان کا ہاتھ کٹ کر لٹک گیا تو انھوں نے پاؤں تلے دبا کر کھینچ کر اسے جدا کر دیا اور پھینک دیا اور باقی سارا وقت اکیلے ہاتھ سے لڑتے اور داد شجاعت دیتے رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے موقف سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صاحب‘ ابن عفراء کے علاوہ اور کوئی تھے کیونکہ ابن عفراء کا نسب اس طرح ہے۔ معاذ بن حارث بن رفاعہ نجاری۔