کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ التَّيَمُّمِ صحيح وَعَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: ((إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ بِيَدَيْكَ هَكَذَا))، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدَيْهِ الْأَرْضَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ مَسَحَ الشِّمَالَ عَلَى الْيَمِينِ، وَظَاهِرَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ: وَضَرَبَ بِكَفَّيْهِ الْأَرْضَ، وَنَفَخَ فِيهِمَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ.
کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل
باب: تیمم کے احکام ومسائل
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی حاجت کے لیے بھیجا۔ میں جنبی ہوگیا اور مجھے پانی دستیاب نہ ہو سکا تو میں مٹی میں اس طرح لوٹ پوٹ ہوا جس طرح چوپایہ لوٹ پوٹ ہوتا ہے۔ پھر (ضرورت سے فارغ ہو کر) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ آپ کے گوش گزار کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا۔‘‘ پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ زمین پر مارا‘ پھر بائیں کو دائیں پر‘ یعنی اپنے ہاتھوں کی پشت اور چہرے پر ملا۔ (بخاری و مسلم۔ یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔) اور بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر ماریں اور ان دونوں میں پھونک ماری، پھر ان کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیا۔
تشریح :
1. یہ حدیث قول و فعل دونوں اعتبار سے یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے اور صرف ہتھیلیوں کی اندرونی و بیرونی سطح پر مسح کرنا ہے‘ کہنیوں تک نہیں۔ اس مسئلے میں یہ حدیث صحیح ترین ہے۔ اس کے مقابلے میں جو دوسری روایات ہیں وہ یا توضعیف ہیں یا پھر موقوف‘ جو اس حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ (سبل السلام) 2. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تیمم میں چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے۔ جمہور محدثین و فقہاء کا یہی مذہب ہے‘ البتہ احناف اور شوافع دو ضربوں کے قائل ہیں۔ ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ہاتھوں کے لیے۔ 3.حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے مروی مذکورہ حدیث جمہور کی دلیل ہے۔ اس مسئلے میں صحیح ترین روایت ہونے کے اعتبار سے اسی پر عمل ہے۔ 4.حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے پانی نہ ملنے پر اپنی عقل و دانش سے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے کا عمل اختیار کیا کہ جب پانی سے غسل کیا جاتا ہے تو سارا بدن دھویا جاتا ہے اور مٹی بھی چونکہ پانی کے قائم مقام ہے‘ اس لیے سارے جسم پر مٹی لگنی چاہیے۔ 5.نص کا علم نہ ہونے کی بنا پر انھوں نے ایسا عمل کیا ورنہ نص کی موجودگی میں مجتہد کے قیاس کی کوئی حیثیت نہیں‘ لہٰذا جب قیاس‘ نص کے مخالف ہو تو اس صورت میں کسی کے لیے بھی یہ روا نہیں کہ وہ نص کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرے۔ 6.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے زمین پر اپنی ہتھیلیاں ماریں اور ان پر پھونک ماری‘ لہٰذا ضرب لگانے کے بعد پھونک مارنا بھی مسنون ہے۔ 7. ایک جنبی کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں اتنا تیمم کر لینا کفایت کر جاتا ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ] ’’عین‘‘ پر فتحہ اور ’’میم‘‘ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ ان کی کنیت ابویقظان تھی۔ سابقین اولین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں۔ مکہ میں انھیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں مگر ان کے پایۂ ثبات میں ذرہ بھر لرزش نہ آئی۔ دونوں ہجرتیں‘ یعنی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کیں۔ غزوئہ بدر سمیت سارے معرکوں میں شمولیت کی۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: ’’افسوس‘ اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ ۳۶ ہجری میں معرکہ ٔصفین میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکریوں میں سے ایک باغی اور سرکش گروہ نے ان کو قتل کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر ۷۳ برس تھی۔
تخریج :
أخرجه البخاري، التيمم، باب التيمم ضربة، حديث:348، ومسلم، الحيض، باب التيمم، حديث:368.
1. یہ حدیث قول و فعل دونوں اعتبار سے یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے اور صرف ہتھیلیوں کی اندرونی و بیرونی سطح پر مسح کرنا ہے‘ کہنیوں تک نہیں۔ اس مسئلے میں یہ حدیث صحیح ترین ہے۔ اس کے مقابلے میں جو دوسری روایات ہیں وہ یا توضعیف ہیں یا پھر موقوف‘ جو اس حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ (سبل السلام) 2. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تیمم میں چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے۔ جمہور محدثین و فقہاء کا یہی مذہب ہے‘ البتہ احناف اور شوافع دو ضربوں کے قائل ہیں۔ ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ہاتھوں کے لیے۔ 3.حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے مروی مذکورہ حدیث جمہور کی دلیل ہے۔ اس مسئلے میں صحیح ترین روایت ہونے کے اعتبار سے اسی پر عمل ہے۔ 4.حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے پانی نہ ملنے پر اپنی عقل و دانش سے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے کا عمل اختیار کیا کہ جب پانی سے غسل کیا جاتا ہے تو سارا بدن دھویا جاتا ہے اور مٹی بھی چونکہ پانی کے قائم مقام ہے‘ اس لیے سارے جسم پر مٹی لگنی چاہیے۔ 5.نص کا علم نہ ہونے کی بنا پر انھوں نے ایسا عمل کیا ورنہ نص کی موجودگی میں مجتہد کے قیاس کی کوئی حیثیت نہیں‘ لہٰذا جب قیاس‘ نص کے مخالف ہو تو اس صورت میں کسی کے لیے بھی یہ روا نہیں کہ وہ نص کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرے۔ 6.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے زمین پر اپنی ہتھیلیاں ماریں اور ان پر پھونک ماری‘ لہٰذا ضرب لگانے کے بعد پھونک مارنا بھی مسنون ہے۔ 7. ایک جنبی کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں اتنا تیمم کر لینا کفایت کر جاتا ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما ] ’’عین‘‘ پر فتحہ اور ’’میم‘‘ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ ان کی کنیت ابویقظان تھی۔ سابقین اولین صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں۔ مکہ میں انھیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں مگر ان کے پایۂ ثبات میں ذرہ بھر لرزش نہ آئی۔ دونوں ہجرتیں‘ یعنی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کیں۔ غزوئہ بدر سمیت سارے معرکوں میں شمولیت کی۔ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: ’’افسوس‘ اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ ۳۶ ہجری میں معرکہ ٔصفین میں یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکریوں میں سے ایک باغی اور سرکش گروہ نے ان کو قتل کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر ۷۳ برس تھی۔